پی پی مرکز بھی ن لیگ کی دل سے اتحادی نہیں

نجم الحسن عارف
پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ہماری حمایت حاصل کرنے کیلئے نواز لیگ سے کہا گیا تھا کہ پہلے اپنے نمبرز پورے کریں، کمی رہ گئی تو ہم پوری کر دیں گے۔ لیکن نواز لیگ آزاد ارکان کو ساتھ بلانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس لئے اسے حمایت دینے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ان ذرائع کے مطابق مرکز میں بھی پی پی نواز لیگ کی حمایت دل سے نہیں کر رہی، بلکہ عملاً متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دے رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ اپنے اسپیکر شپ کیلئے امیدوار سید خورشید شاہ کیلئے حاصل کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی پی اور نواز لیگ کے درمیان فاصلہ فوری طور پر ختم ہونا مشکل ہے۔ تاہم آنے والے دنوں میں اس فاصلے کو پاٹنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں سے مراد چند ماہ اور چند ہفتے بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم ابھی ایسی صورت حال نہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی جو خود اپنی اعلیٰ ترین قیادت کے خلاف نیب اور ایف آئی اے میں جاری انکوائریز اور الزامات کے باعث الجھی ہوئی ہے، نواز لیگ کیلئے کسی بھی سطح پر والہانہ پن کا مظاہرہ کر کے اپنے لئے مشکلات میں اضافے کی راہ ہموار نہیں کرنا چاہتی۔ پی پی پی قیادت کو خدشہ ہے کہ ایسی صورت میں پی پی کیلئے مشکلات میں اضافے کا خطرہ ہے۔ اس لئے فی الحال ایسا کوئی فیصلہ یا اقدام نہیں کیا جا سکتا جس سے براہ راست اور کھلے عام نواز لیگ کی حمایت یا مدد کا تاثر بنے۔ البتہ متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے مشترکہ فیصلے آ سکتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی پی پی پی کی کوشش ہے کہ نواز لیگ سے حمایت حاصل زیادہ کرے اور فراہم کم کرے۔
واضح رہے مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف نے 25 جولائی کے الیکشن کے بعد دوسری جماعتوں سے پنجاب میں مدد لینے کیلئے سب سے اہم ملاقات پی پی کے رہنما مخدوم احمد محمود سے کی تھی اور پنجاب میں نواز لیگ کا وزیر اعلیٰ لانے کیلئے مدد طلب کی۔ لیکن مخدوم احمد محمود نے صاف طور پر کہہ دیا کہ پی پی پی کی پنجاب میں چھ نشستوں میں سب سے زیادہ نشستیں ضلع رحیم یار خان سے ہیں۔ یہ وہ ضلع ہے جہاں بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ یونین کونسلیں پی پی نے جیتیں تھیں، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ ن نے ہمارے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا، بلکہ اپنا چیئرمین ضلع کونسل جتوا لیا۔ اس لئے رحیم یار خان کے نمائندے نواز لیگ کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں مخدوم احمد محمود نے اپنے بیٹے کو بلا کر میاں شہباز شریف سے کہا کہ آپ اس سے براہ راست بات کر لیں، جسے میرٹ اور مینڈیٹ کی بنیاد پر ضلع رحیم یار خان کا چیئرمین بننا تھا، لیکن آپ نے اسے جمہوری حق سے محروم کر دیا۔ ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف کو اس موقع پر بھی مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے قائد ایوان کی حمایت کی جائے تو بہتر ہوگا کہ آپ قائد ایوان نواز لیگ سے تو لیں لیکن شریف خاندان سے نہ لیں۔ ذرائع کے بقول میاں شہباز شریف نے دریافت کیا کہ آپ کے خیال میں کسے قائد ایوان نامزد کیا جائے۔ اس پر احمد محمود نے نواز لیگ کے ایک بزرگ رکن اسمبلی کا نام بھی تجویز کیا۔ تاہم بعد ازاں شہباز شریف خاموش ہو گئے۔
پی پی کے ذرائع کے مطابق اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں پہلے اپنے نمبرز پورے کرنے کی کوشش کرتی اور بعد میں باقی رہ جانے والی کمی پوری کرنے کے لئے پی پی پی سے رابطہ کرتی تو اس صورت حال میں پی پی مدد کرنے کو آگے آ سکتی تھی۔ ان ذرائع کے مطابق نواز لیگ کو پی پی کی حمایت سے مثبت جواب نہ ملنے نے مایوس کیا۔ نواز لیگ کی قیادت کو اس کے بعد ایک اور مایوسی پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن کی طرف سے شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بھی حمایت نہ مل سکنے سے ہوا۔ تاہم نواز لیگ نے اپنے پتے فوری سامنے نہ لانے کی حکمت عملی ظاہر کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وقت آنے پر سرپرائز دیں گے۔ اس بارے میں پی پی کے ذرائع نے بتایا کہ اگر واقعی اس سرپرائز والی بات میں کوئی جان ہوتی تو ہم بھی پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کو سرپرائز دیتے ہوئے ووٹ دینے کا سوچتے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ نواز نے پنجاب کے بارے میں اپنی حکمت عملی کو بظاہر ترپ کے پتے کے طور پر چھپا کر رکھا ہے۔ لیگی ذرائع سے ’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے غیر رسمی انداز میں آصف علی زرداری کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے صدارتی امیدوار بنانے کی تجویز بھی پیش کی ہے جس کیلئے نواز لیگ نے فوری طور پر کوئی رسپانس نہیں دیا۔ تاہم پی پی پی کے ذرائع اس معاملے کو ابھی قبل از وقت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں اس بارے میں فی الحال بات کرنا مناسب نہیں۔ کیونکہ پہلے اسپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب ہونا ہے۔ اگر اس میں اپوزیشن نے اپنی بھرپور قوت ظاہر کردی تو پھر صدارتی مرحلہ آئے گا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی پی، مسلم لیگ نواز کے انتہائی مشکل وقت میں نواز لیگ کی کھلی حمایت کر کے اپنے لئے مشکلات بڑھانے کا رحجان نہیں رکھتی۔ نیز پی پی کی کوشش ہے کہ اگر مسلم لیگ نواز کی مجبوری سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر پوزیشن بہتر کی جا سکتی ہو تو ایسا کیا جائے۔ ان ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اس کھیل کے ماہر سمجھتے ہیں۔ اس لئے پی پی پی، نواز لیگ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اسے مضبوط کرنے اور اس کے مقابلے میں خود کو کمزور رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے، بلکہ نواز لیگ کی اسمبلیوں میں عددی قوت کو اپنی سیاسی قوت اور پوزیشن کو بہتر بنانے میں بروئے کار لانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی پی پی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پی پی پی، نواز لیگ کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف کے ساتھ اپنے آپ کو ’’کمفرٹ ایبل‘‘ سمجھنے میں سخت مشکلات محسوس کرتی ہے۔ اس لئے اگر میاں نواز شریف خود سامنے ہوتے تو ممکن ہے پی پی پی کی طرف سے رسپانس قدرے مختلف ہوتا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment