گولڈ اسمگلنگ کا معمہ سلجھانے میں کسٹمز افسران رکاوٹ

امت رپورٹ
تیس ارب روپے مالیت کے سونے کی اسمگلنگ کا معمہ سلجھانے میں کسٹمز افسران رکاوٹ بن گئے۔ ناقص تفتیش کے باعث کئی برس بعد بھی اسمگلروں کا تعین نہ کیا جا سکا۔ جبکہ ریکوری کا عمل بھی زیر التوا ہے۔ واضح رہے کہ مقدمات میں 8 تاجروں کے علاوہ کلیئرنگ ایجنٹ اور ٹریڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی نامزد ہیں، جنہوں نے ٹڈاپ کا لیٹر اور جعلی ای فارم استعمال کرکے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
سونے کی بڑی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی مکمل کرنے میں کسٹمز حکام اور ایف آئی اے حکام ناکام ہوگئے۔ تفتیش کو درست انداز میں نہیں چلایا گیا۔ کسٹم حکام کی جانب سے 4 برس گزر جانے کے باوجود اب تک ریکوری مکمل نہیں کی گئی، جبکہ ایف آئی اے حکام معاملے میں ملوث کسٹمز افسران کے خلاف کارروائی کو آگے نہیں بڑھا سکے۔ کسٹمز کے ڈائریکٹو ریٹ آف انٹر نل آڈٹ کے شعبہ کی جانب سے ایف بی آر حکام سے رابطہ کے بعد معاملے کا وفاقی ٹیکس محتسب نے بھی نوٹس لے لیا اور کسٹم حکام سے مکمل رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔
ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسمگلنگ پر کسٹمز حکام کی جانب سے 5، جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ابتدائی طور پر جعلی کمپنیاں قائم کرکے سونا اسمگل کرنے والے 8 تاجروں کے علاوہ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کو نامزد کیا گیا تھا، جبکہ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں درج مقدمے کے تفتیشی افسر کی جانب سے 2010 سے 2012کے دوران ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ ایکسپورٹ پورٹ قاسم پر تعینات رہنے والے کسٹمز افسران کی فہرست طلب کی گئی تھی، تاکہ ان افسران اسمگلنگ کے مرکزی کرداروں تک پہنچا جا سکے۔ تاہم 2015 میں سے اب تک ان میں سے ایک کسٹمز افسر کے خلاف بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب 2014 میں ماڈل کسٹمز کلکٹوریٹ اپریزمنٹ، پورٹ قاسم ایکسپورٹ کے کلکٹر کی جانب سے ایک کیس پکڑا گیا تھا، جس میں کئی کمپنیوں کے ذریعے جعلی ای فارم استعمال کرکے بڑی مقدار میں سونا متحدہ عرب امارات بھیجا جا رہا تھا۔ معاملے کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ یہ اسمگلنگ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کیلئے دی جانے والی سبسڈی یعنی رعایت استعمال کر کے کی جا رہی تھی۔ اس کے ذریعے ملکی خزانے کو ٹیکس ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق معاملہ سامنے آنے کے بعد اس کی مزید تحقیقات کسٹم کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کو سونپی گئی، جس میں معلوم ہوا کہ سونے کے تاجروں کی جانب سے 5 جعلی کمپنیاں قائم کی گئی تھیں، جن کے ذریعے ملک بھر کے سونے کے تاجروں کا مال بغیر ڈیوٹی ادا کئے بیرون ملک بھیجا جاتا رہا۔ اس کے بدلے تاجروں نے کسی قسم کا زر مبادلہ ملک میں نہیں منگوایا تھا۔ مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہ جعلی ٹڈاپکی جانب سے دی جانے والی آفر کا ناجائز استعمال کرنے کیلئے بنائی گئی تھیں۔ واضح رہے 2010 میں ٹداپ نے ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے ایک اسکیم متعارف کرائی تھی، جس کے تحت ان کو خصوصی رعایت دی جاتی تھی جو بیرون ملک سے خالص سونا منگواکر اسے زیورات کی شکل میں تیار کرکے واپس ایکسپورٹ کرتے تھے۔ تاہم ٹڈاپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے سونے کے بعض تاجروں کے ساتھ مل کر اس اسکیم کا ناجائز استعمال کیا گیا اور بعض شہریوں کے شناختی کوائف استعمال کرکے 5 جعلی کمپنیاں قائم کی گئیں، جنہوں نے 2010 سے 2012 اور 2013کے دوران کراچی و لاہور سمیت ملک بھر کے سونے کے 2 درجن سے زائد تاجروں کا اربوں روپے کا سونا متحدہ عرب امارات بھیجا۔
معلومات کے مطابق کسٹمز حکام کی جانب سے یہ کیس سامنے آنے کے بعد جب تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ اس اسکیم کے تحت نہ صرف پاکستان سے سونا متحدہ عرب امارات بھجوایا جاتا رہا بلکہ خالص سونے کی آڑ میں بیرون ملک سے درآمدی زیورات بھی منگوا کر ملک بھر میں فروخت کئے جاتے رہے۔ درآمدی سونے پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹی کو یہ ظاہر کرکے چوری کیا جاتا رہا کہ یہ سونا دوبارہ ایکسپورٹ کرنے کیلئے منگوایا جا رہا ہے۔ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کسٹم حکام کی جانب سے 5 مقدمات قائم کئے گئے، جن میں 8 تاجروں، کلیئرنگ ایجنٹوں کے علاوہ ٹڈاپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی نامزد کیا گیا۔ ان میں سے 5 تاجروں کو کسٹمز حکام نے 2015 میں گرفتار کیا تھا۔ دوسری جانب اسکینڈل میں ملوث تاجروں کے علاوہ کسٹمز افسران کے کردار کا جائزہ لینے کیلئے ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا، جس کے بعد ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں 2016 میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تفتیشی افسر انسپکٹر سراج پنہور نے مقدمہ میں نامزد ملزم کلیئرنگ ایجنٹ اور ٹڈاپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی گرفتار کیا تھا، تاہم دونوں اداروں میں پیش رفت یہیں تک محدود رہی۔ کیس کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ 4 برس گزر جانے کے باوجود اب تک ریکوری نہ ہونے اور ملزمان کا تعین نہ ہونے کے حوالے سے کسٹمز کے اپنے ہی شعبے ڈائریکٹوریٹ آف انٹر نل آڈٹ کی جانب سے دو بار تفصیلی رپورٹ ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئی ہے تاکہ کیس فائل کا از سر نو جائزہ لے کر متعلقہ کسٹمز حکام سے جواب طلب کیا جاسکے۔ چند روز قبل اسی حوالے سے رپورٹ وفاقی ٹیکس محتسب کو بھی موصول ہوئی۔
ذرائع کے مطابق قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ملزمان کو کسٹمز افسران کی جانب سے ریلیف دیا گیا، جنہیں معلوم تھا کہ اگر ان افراد سے سخت باز پرس کے ذریعے ریکوری کی گئی تو کسٹم کے ملی بھگت کرنے والے پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آسکتے ہیں، جس کی وجہ سے معاملے پر تفتیش کو اتنی طول دی گئی کہ آہستہ آہستہ اسے دبا دیا گیا۔ جبکہ ایف آئی اے حکام کی جانب سے بھی ریکارڈ طلب کرنے کیلئے زیادہ تگ و دو نہیں کی گئی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment