قاتل ڈور کی شکار بچی ڈھائی گھنٹے تڑپتی رہی

اقبال اعوان
لیاقت آباد میں غریب آباد انڈر پاس کے قریب پتنگ کی قاتل ڈور کی شکار 7 سالہ تلبیہ ڈھائی گھنٹے تک تڑپتی رہی۔ تیز دھار مانجھے سے بچی کی گردن کٹنے کا روح فرسا منظر دیکھنے والے راہ گیروں نے فوری طور پر ایمبولینس کو کال کیا۔ لیکن جاں بہ لب تلبیہ کو لے جانے والی ایمبولینس سندھ گورنمنٹ اسپتال کے راستے میں پون گھنٹے تک پھنسی رہی۔ کیونکہ علاقے میں لگنے والی پرندہ مارکیٹ اور بکرا منڈی کے سبب اس روٹ پر بد ترین ٹریفک جام تھا۔ اس کے بعد وہاں موجود لوگوں کے اس مشورے پر عباسی شہید اسپتال کا رخ کیا گیا کہ سندھ گورنمنٹ اسپتال میں تو مرہم پٹی تک کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں، لہٰذا یہاں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچی کو سیدھا عباسی شہید اسپتال لے جایا جائے۔ تاہم ایمبولینس کے منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی تلبیہ سفر آخرت پر روانہ ہوگئی۔
المناک واقعے کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے تلبیہ کے والد افضال خان سے ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ… ’’میری بیٹی نے نانی کے گھر کورنگی جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ جائے حادثہ سے ذرا پہلے اس نے موٹر سائیکل رکوا کر ضد کی کہ میں آگے بیٹھوں گی اور اپنے چھوٹے بھائی محمد خرم کو زبردستی اپنے پیچھے بٹھوا دیا۔ وہاں سے چلے ہی تھے کہ پتنگ کی ڈور پھرنے کے بعد اس کی گردن بری طرح کٹ گئی‘‘۔ افضال خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے پولیس کارروائی اس لئے نہیں کرائی کہ ڈور کے ذریعے کیا پتا چلے گا کہ کہاں سے آئی ہے؟ اور پتنگ کون اڑا رہا تھا؟ لیکن حکومت سے یہ مطالبہ ضرور ہے کہ پتنگ اور مانجھا فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور پتنگ بازی پر پابندی عائد کی جائے۔ تاکہ کسی اور کے جگر کا ٹکڑا گردن کٹنے سے نہ مرے‘‘۔ واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ اتوار کی سہ پہر تین بجے شریف آباد تھانے کی حدود غریب آباد انڈر بائی پاس کے قریب واقع بینک کے سامنے پیش آیا۔ ایف سی ایریا کے رہائشی محمد افضال خان کا کہنا تھا کہ ’’تلبیہ بہن بھائیوں میں پہلے نمبر پر تھی۔ اس کے بعد دو بیٹے احسان اور خرم ہیں۔ میری بیٹی رشتہ داروں کی آنکھ کا تارا تھی۔ اس نے پہلی کلاس میں ٹرافی حاصل کی تھی اور کہتی تھی کہ ہر بار فرسٹ پوزیشن لے کر آئوں گی۔ ہم میاں بیوی اس کی کسی بات کو نہیں ٹالتے تھے۔ اتوار کا دن چھٹی کا ہوتا ہے، اس لئے تلبیہ صبح سے ضد کر رہی تھی کہ اپنی نانی کے گھر کورنگی جائوں گی اور تیار ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ اسے کہا کہ چلو بکرا منڈی لگی ہے، ادھر لے چلتا ہوں۔ تاہم اس نے انکار کر دیا کہ نانی کے گھر ہی جانا ہے۔ چنانچہ ہم لوگ موٹر سائیکل پر روانہ ہوگئے۔ جونہی غریب آباد انڈر پاس کے قریب آئے، اس نے موٹر سائیکل رکوائی کہ پاپا مجھے آج آگے بٹھائیں، میرا دل کر رہا ہے۔ میں نے منع کیا تو ضد کرنے لگی اور خرم کو ہٹا کر آگے بیٹھ گئی۔ لگتا ہے کہ اس نے چھوٹے بھائی کی جگہ موت کے فرشتے کے سامنے خود کو پیش کیا تھا‘‘۔ افضال کی اہلیہ کو بار بار بے ہوشی کا دورہ پڑ رہا تھا۔ وہ خون میں لت پت بچی کو لے کر اسپتال تک گئی تھیں۔ جب پتا چلا کہ بیٹی مر چکی ہے تو اوسان کھو بیٹھیں اور ہوش میں آتے ہی بیٹی کا معلوم کرتی ہیں۔ ان کے گھر پر اتوار کی شام سے قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ افضال خان کا کہنا تھا کہ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں پتنگ بازی پر پابندی ہے۔ تاہم کراچی میں کبھی نہیں لگی۔ حالانکہ یہاں بھی آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اگر پتنگ بازی پر پابندی نہیں لگائی جاتی تو کم از کم اس تیز دھار مانجھے پر پابندی لگانی چاہئے۔
واضح رہے کہ کراچی میں ہر سال 15 سے زائد افراد خاص طور پر بچے، پتنگ کی ڈور کا شکار ہوکر شدید زخمی یا جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے جب شریف آباد تھانے کے ڈیوٹی افسر پرویز سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کی اطلاع پر وہ خود گئے تھے۔ مانجھا (ڈور) اس قدر تیز تھا کہ بچی کی گردن بری طرح کٹ گئی تھی۔ اس کو فوری طبی امداد درکار تھی۔ لیکن اس مقام پر ٹریفک جام رہتا ہے۔ اتوار کو پرندہ بازار اور بکرا منڈی بھی لگتی ہے۔ ان کو ہٹانا کے ایم سی کا کام ہے۔ ایک سوال پر ڈیوٹی افسر کا کہنا تھا کہ بچی کے والد نے پولیس کارروائی یا مقدمہ کرانے سے انکار کر دیا تھا کہ ایک ڈور سے کیا پتہ چلے گا کہ کون پتنگ اڑا رہا تھا؟ تاہم ہوا کا رخ بتاتا ہے کہ لیاقت آباد نمبر سات یا آٹھ کی بلڈنگوں میں سے کسی جگہ سے پتنگ اڑائی گئی تھی۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ نے صدر ایمپریس مارکیٹ میں پرندہ بازار سے متصل پتنگ مارکیٹ جا کر صورت حال معلوم کی۔ وہاں ڈور سے بچی کی گردن کٹنے سے ہلاکت کے بعد مارکیٹ کے کئی دکاندار غائب ہو گئے تھے اور دکانیں بند تھیں۔ جبکہ جو دکانیں کھلی تھیں وہاں سے پتنگ اور مانجھے اندر رکھ دیئے گئے تھے۔ ایک دکاندار محبوب کا کہنا تھا کہ کراچی میں پتنگ بازی پر پابندی کبھی نہیں لگی۔ شہر کے بعض علاقوں میں ایسے کارخانے ہیں، جہاں پتنگ اور مانجھا بنتا ہے۔ یہاں پر لاہور والی دھاتی ڈور نہیں ہوتی اور نہ ہی لائی جاتی ہے۔ پتنگ بازی کا شوق زیادہ تر کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی، بلدیہ ٹائون، ناظم آباد اور لیاقت آباد کے علاقے میں ہے اور ان ہی علاقوں میں مانجھا تیار کیا جاتا ہے۔ مانجھا تیار کرنے کے دوران کیمیکل، گوند اور شیشے کا برادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈور سے ہلاکت کی اطلاع پر پولیس آ جاتی ہے اور پیدا گیری شروع کر دیتی ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں پتنگ بازی کا شوق بمشکل 30 فیصد رہ گیا ہے۔ شہر میں اونچی عمارتیں اوور ہیڈ برج، کھمبوں اور تاروں کی وجہ سے پتنگ بازی مشکل ہے۔ پتنگ کٹ کر جاتی ہے تو دور جا کر کہیں پھنس جاتی ہے اور مانجھا ادھر ادھر سڑک پر آ جاتا ہے اور حادثات کا سبب بنتا ہے۔ زیادہ تر موٹر سائیکل سوار اس کا شکار ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment