قسط نمبر: 198
وزیر کی عدت کے دن ختم ہوئے، راحت افزا کی تاریخ بھی ٹھہر گئی اور سانچق مہندی بارات رخصتی کے انتظامات بھی زور پکڑنے لگے۔ لیکن شادی کے رقعے تقسیم نہ ہو سکے تھے۔ عمدہ خانم نے یہ اطلاع تو دے دی تھی کہ نواب یوسف علی خان نے بہت زور دے کر یہ بات کہی کہ آغا مرزا تراب علی مرحوم کے گھر پر وزیر کا پورا پورا حق ہے کہ آخر وہ اس گھر کی بہو ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت حضور پر نور بندگان عالی نے اس باب میں اپنا کوئی عندیہ ظاہر کیا کہ نہیں، اس عقدے کی کشائش تک بھی نہ ہو سکی تھی۔ اس گومگو کے عالم کے باوصف وزیر کا تہیہ اسی طرح برقرا تھا کہ شادی اسی گھر سے ہو گی اور حبیب النسا کے نہیں، وزیر خانم کے شایان شان ہوگی۔ یہ ارادہ قوت سے فعل میں کس طرح آئے گا، اس بات کا نقشہ ابھی وہ اپنے ذہن میں تیار نہ کر سکی تھی، لیکن اسے کچھ عجیب طرح کا اطمینان تھا کہ اس کا ارادہ پورا ہو کر رہے گا۔ اس نے اپنے دل میں سوچا کہ شادی کو ایک ہفتہ رہ جائے اور پھر بھی آستانہ عالی سے کوئی حکم صادر نہ ہو تو میں منجھلی باجی کو لے کر نواب یوسف علی خان، اور ممکن ہوا تو خود حضور کی خدمت اقدس میں بار پانے کی سعی کروں گی۔
بارات کی آمد کو دس دن رہ گئے تھے اور اب وزیر خانم کو تشویش ہونے لگی تھی۔ ایک بار تو اس کے جی میں یہاں تک آئی کہ فیروز پور جھرکہ فرنگیوں کے ہزار زیر نگیں ہو، لیکن نواب شہید کو حرف مہر و الفت کے ساتھ یاد کرنے والے وہاں اب بھی بہت ہوں گے۔ کیوں نہ رقعہ بھیج کر دس بیس جیالوں کو بلوا لوں کہ شادی کا انتظام کرنا ہے، آپ لوگوں کے بغیر پورا حسب مرضی نہ ہو سکے گا۔ لیکن یہ خیال اس نے فوراً ہی مسترد کر دیا کہ ناممکن العمل نہ بھی سہی، لیکن کئی پہلوئوں سے یہ کوئی اچھی تجویز نہ تھی۔ بجا کہ فیروز پور کے جوانوں کی نگرانی میں نکاح بطریق امن و امان ہو جاوے، لیکن اگر اعلیٰ حضرت کو پرچہ لگا، اور پرچہ انہیں ضرور بالضرور لگے گا کہ باہر لٹھیتوں کو بلوا کر شادی کا انتظام کرایا گیا تو وہ آشفقہ خاطر بھی ہو سکتے ہیں۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کوئی اچھی بات نہیں۔ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ ایسی شادی کس قدر بے لطف گردانی جاوے گی جس میں باہر کے لوگوں کا چوکی پہرہ درکار ہووے۔
ظہر کی نماز پڑھ کر وہ پالکی منگوا کر منجھلی باجی کے یہاں جانے کا خیال کر رہی تھی کہ باہر کچھ شور سا ہوا۔ ایک دو لحظہ بعد خبر لگی کہ آستانہ عالی سے حضور پرنور نے پالکی بھیج کر وزیر خانم کو طلب فرمایا ہے۔ پالکی کے اغل بغل دو بردار اور جلو میں چلنے کے لئے ایک سوار مہیا ہیں جن کی حفاظت میں وزیر خانم کو قلعہ معلیٰ پہنچا دیا جائے گا۔
وزیر سناٹے میں آ گئی۔ اسے باب عالی سے کسی اشارے کی توقع تھی کہ امیر النسا بیگم کو کچھ مناسب ہدایت کہلا دی جاوے گی۔ یا بہت ہوا تو نکاح بارات کے وقت اعلیٰ حضرت کی طرف سے دو چار سوار گلی میں تعینات رہیں گے کہ سب کام بخیر و خوبی انجام کو پہنچیں۔ لیکن یہ طلبی …؟ اور میں ان کا سامنا کس طرح کروں گی۔ پتہ نہیں حضوری کے طریقے وہاں کیا ہیں۔ تسلیمات کیونکر بجا لائوں گی۔ شاید مجھے کھڑی رہنے کو کہا جائے؟ اور یہ میرے بیوگی کے بے رنگ بانے… کپڑے تو آج ہی بدلے ہیں، بنائو سنگھار کا تو سوال یوں بھی نہیں اٹھتا … دو چھپکے پانی کے منہ پر مار لوں اور بال ذرا ٹھیک کر کے ڈوپٹے کا گھونگھٹ سا بنا لوں۔ یہی بہت ہو گا۔
آج اس نے مدتوں بعد آئینہ دیکھا تھا۔ چہرے پر شگفتگی نہ تھی لیکن بظاہر کوئی شکن بھی نہ تھی۔ بال اور ہاتھ پائوں روکھے، بے آب سے تھے، مگر سر میں ایک سفید بال نہ تھا اور بدن پر بڑھاپے کی سکڑن نہ تھی۔ وہ بالوں میں جلد جلد کنگھی پھیر رہی تھی کہ باہر سے کسی کے پکارنے کی سی کچھ آواز آئی۔ حبیبہ نے آ کر بتایا کہ سوار نے کہلایا ہے، حضور نواب صاحب انتظار فرما رہے ہیں۔
’’بسم اللہ شریف پڑھ کر تشریف لے جایئے خانم صاحب، مولا کی مہربانی سے بڑا اچھا موقع ملا ہے۔ راستے میں درود پڑھ کر یا ودود کی تسبیح پڑھ کر خود پر پھونکتی جایئے گا۔ روبرو ہوتے وقت یا اللہ یا رحمن یا رحیم پڑھنا نہ بھولئے گا‘‘۔ حبیبہ کے لہجے میں تاکید تھی لیکن گھبراہٹ نہ تھی۔
وزیر نے جلد جلد بال ٹھیک کئے، کپڑوں سے حتیٰ الامکان شکنیں دور کیں اور چادر لپیٹ کر پالکی میں سوار ہو گئی۔ اسے راستوں کی زیادہ اٹکل نہ تھی، اور بند پالکی سے باہر کا حال کچھ زیادہ دکھائی بھی نہ دیتا تھا۔ بازار کی تھوڑی بہت آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ لیکن کتنی راہ طے ہوئی، اس کا کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔ بردار پالکی کے دونوں طرف بے تکان اور بے آواز پالکی کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے۔ آگے کے سوار کے گھوڑے کی ٹاپیں کبھی کبھی سنائی دے جاتیں۔ ہموار سڑک اور کہاروں کے سدھے ہوئے قدموں کے آہنگ کے باعث وزیر کو جھٹکے نہ لگتے تھے اور پالکی کی رفتار میں کشتی کے بہائو کی سی کیفیت تھی۔
پالکی ایک ثانیے کے لئے دھیمی ہوئی، پھر رک گئی اور کہاروں نے پالکی کو آہستہ زمین پر رکھ دیا۔ کسی نے آواز لگائی: ’’پردہ لگائو‘‘۔
نیم تاریکی پالکی میں وزیر کو کچھ پتہ نہ چل رہا تھا کہ میں کہاں ہوں، لیکن تھوڑی دیر بعد آواز آئی کہ ’’پردہ لگ گیا ہے۔ سرکار تشریف لے آویں‘‘۔ اور وزیر نے احتیاط کے ساتھ پائوں باہر نکالے۔ اس نے بدن پر چادر اس طرح لپیٹ رکھی تھی کہ جوتیوں سے لے کر سر تک سب کچھ ڈھکا ہوا تھا۔ صرف آنکھیں اور پیشانی کا ایک حصہ کھلا ہوا تھا۔ پائوں باہر نکالنے میں اس نے یہ اہتمام رکھا کہ جوتیوں کے سوا ٹخنے بھی نہ دکھائی دیں۔ چادر برابر کر کے اور ہاتھوں کو چادر میں چھپائے ہوئے جب وہ باہر آئی تو اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ قلعہ معلیٰ کے صدر دروازے ، یا دیوان دفتر کے سامنے نہیں بلکہ کوچہ سلامت حبیبی راہداری میں ہے۔ پالکی کے پیچھے پردہ کھنچا ہوا ہے۔ دونوں جانب دیواریں اور سامنے اندرون حویلی کا بلند دروازہ ہے۔ چھیوں کہار، دونوں بردار اور سوار، سب پردے کے پیچھے تھے۔
وزیر ایک لمحے کے لئے دل میں ڈری کہ میں یہاں کہاں لے آئی گئی ہوں۔ اس نے ہمت کرکے ادھر ادھر دیکھا ، لیکن محافظ خانے کے دروازے پر چار قلماقنیوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ ابھی اسی سوچ میں تھی کہ قلما قنیوں کو سلام کروں یا نہ کروں، کہ ایک قلماقنی نے قدم آگے بڑھا کر اسے تسلیم کی اور کہا ’’آیئے، بے کھٹکے تشریف لے آیئے۔ قبلہ عالم حضور نواب صاحب آپ کے منتظر ہیں‘‘۔
وزیر نے دل میں اطمینان کا سانس لیا اور ہاتھ کے اشارے سے چاروں قلما قنیوں کو سلا کے آگے بڑھی۔ دروازے کے اندر چند ہی قدم جانے پر اسے نواب یوسف علی خان بہادر کے یہاں کی ایک اصیل نظر آئی۔ وزیر کو سلام کر کے اصیل نے کہا ’’یہ چادر مجھے دے دیں خانم صاحب۔ اندر بڑے ایوان میں بڑے حضور نواب صاحب بہادر آپ سے ملاقات فرمائیں گے‘‘۔
پالکی میں سوار ہونے کے وقت سے لے کر اترنے کے بعد تک اس کے ذہن میں خلفشار سا تھا جو اب دور ہوتا نظر آتا تھا۔ اس کے دل و دماغ کی فضا کھلتی ہوئی محسوس ہوئی تو ایک خود کار اور غیر شعوری عمل کے ذریعہ اس کے بدن کی رگوں میں خون کی چہل پہل اور چہک تیز ہو گئی۔ طبیعت ہلکی ہو جانے کے باوجود وزیر نے اپنی نظریں اپنے قدموں پر جمائے رکھیں اور نواب یوسف علی خان کی اصیل کے پیچھے چلتی ہوئی ایوان میں داخل ہوئی۔
اونچی دیواریں، فرش پر ہر طرف ترکی اور کشمیری قالین، چھت جھاڑوں اور کنولوں سے پٹی ہوئی، لیکن اس وقت صرف کوئی تین سو قمقموں والا ایک وسطی جھاڑ روشن تھا۔ بیچ میں سنگ مرمر کا چھوٹا سا چلتا ہوا فوارہ جولالے کے پھول کی ہیئت میں تھا۔ قالینوں پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے گائو تیکے، ان کے سامنے چاندی کے اگالدان اور صندلی تپائی پر چاندی کی طشتری میں خشک میوے، ہوا میں ہلکی ہلکی خوشبو، پورے ماحول سے نفاست اور خوش سلیقگی برس رہی تھی۔ لیکن کمرہ اتنا بڑا تھا کہ وہ چلتی گئی اور کمرہ تھا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ خادمہ اس کے ساتھ دائیں جانب ذرا پیچھے چل رہی تھی، لہٰذا وزیر کو اطمینان تھا کہ ابھی ٹھہرنے کی منزل نہیں آئی ہے۔ ایوان کے اگلے سرے پر زربفتی پردہ دیوار کی کھنچا ہوا تھا۔ پردے کے قریب پہنچ کر خادمہ نے وزیر کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ذرا سے فاصلے پر بیٹھی ہی تھی کہ پردے کے پیچھے ہلکی سی آہٹ ہوئی اور پردہ بیچ سے کھنچ کر ایک دو انگل بھر کھل گیا۔ اصیل نے پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی کے لہجے میں وزیر سے کہا ’’حضور والا تشریف لے آئے ہیں۔ تسلیمات بجا لائیں‘‘۔
وزیر کچھ ہڑبڑا کر اٹھی، پردے کی طرف رخ کر کے تین تسلیمیں کر کے وہ بولی ’’سرکار کا اقبال بلند رہے، ہماے سعادت کا سایہ حضور کے فرق مبارک پر تا قیامت رہے‘‘۔
پردے کے پیچھے سے نہایت شائستہ، تین اور پررعب آواز آئی ’’وزیر خانم، آغا مرزا تراب علی ہمارے خدمت گار وفادار تھے۔ ہمیں ان کی شہادت کا رنج ہے، لیکن مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ‘‘۔
’’بندی ان کے ماتم میں سحر و شام سیہ پوش ہے، ان کی یادگار کو کلیجے سے لگائے جی رہی ہے‘‘۔
’’ہمیں یقین ہے کہ وہ مرتبہ شہادت پر فائز کئے گئے ہوں گے‘‘۔
وزیر کو لگا کہ اس جملے میں شاید یہ اشارہ پنہاں ہے کہ جانے والا تو اعلیٰ علیین میں آرام سے ہوگا، تمہیں اپنے حال و آئندہ کی فکر کرنی چاہئے۔ وہ ابھی کوئی مناسب جواب سوچ ہی رہی تھی کہ نواب صاحب نے مزید فرمایا: ’’اور آپ کی بہبود بھی ہمیں منظور ہے‘‘۔
’’دولت و اقبال حضور کا روز افزوں ہو، سرکار کی رعایا پروری تو چاروں دانگ شہرہ رکھتی ہے‘‘۔
’’آپ ہماری رعایا ہی نہیں، ہماری بہو بھی ہیں۔ ہم یہ ہر گز پسند نہ کریں گے کہ سسرال میں آپ کو گھر کا سارا آرام اور لحاظ نہ ملے‘‘۔
وزیر کے خیال میں نواب کا مطلب بالکل صاف تھا۔ امیر النسا کی کچھ نہ چل سکے گی۔ وزیر اپنی حسب منشا آمد بارات، شادی، رخصتی وغیرہ کا انتظام کرے، کوئی مزاحم نہ ہوگا۔ وزیر ابھی تک سر جھکائے کھڑی تھی، پردے کی جھری سے اسے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ صرف آبنوسی صندلی کا پایہ اور نواب صاحب کی زر نگار جوتی کی دھندلی سی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اس نے اسی جوتی پر نظر جمائے جمائے جواب دیا: ’’حضور فیض مرتبت کے احسان سے یہ بندی کبھی عہدہ برآ نہ ہو سکے گی۔ اللہ آپ کی سلطانی کو تاقیامت قائم رکھے اور آپ کے ملک کو شاد و آباد رکھے‘‘۔
وزیر نے یہ کہہ کر تین تسلیمیں کیں اور پردے کی طرف منہ کئے کئے الٹے قدموں واپس جانے کے لئے تیار ہوئی کہ اسے نواب صاحب کی آواز پھر سنائی دی ’’نواب یوسف علی خان بہادر سلمہ اللہ تعالیٰ کو اپنا مربی سمجھیں، جب بھی کچھ عرض کرنا ہو، بے تکلف گزارش کریں۔ اب جائیں، اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو‘‘۔
’’مجھ بندی کا رواں رواں آپ کا دعا گو رہے گا۔ کنیز آخری سانس تک آپ کے گن گاتی رہے گی۔ جناب سیدہ اور دوازدہ معصومین کی برکات سدا آپ کے شامل حال رہیں‘‘۔ (جاری ہے)