مولانا شفیق احمد خاں بستوی، فاضل دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:
جب مولانا مرغوب الرحمنؒ کو دارالعلوم دیوبند کا مہتمم مقرر کیا گیا تو میں نے عمومی انداز کی بات دوستوں سے سنی تھی کہ حضرت کی تنخواہ دارالعلوم کی طرف سے پانچ ہزار مقرر ہوئی تھی، مگر آپ اس متعینہ مقدار میں سے صرف پانچ روپے لیتے تھے اور بقیہ رقم دارالعلوم کے خزانے میں واپس جمع کرادیتے تھے، کسی نے ایک بار حضرت سے سوال کیا کہ آپ پانچ ہزار میں سے پانچ روپے لے کر بقیہ واپس کردیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنے فضل وکرم سے نوازا ہوا ہے۔ اس لیے مجھے تو پانچ روپے کی بھی ضرورت نہیں ہے، لیکن صرف اس لیے یہ پانچ روپے لیتا ہوں تاکہ میرے دل میں احساس رہے کہ دارالعلوم کا ایک ملازم ہوں اور دارالعلوم سے تنخواہ لیتا ہوں، اس تنخواہ کی وجہ سے احساس ذمہ داری رہے کہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داریاںہیں۔ (ماہنامہ وفاق المدارس، فروری 2011ء، صفحہ 15)
ایک بار مولانا حسرت موہانیؒ ایک مشاعرے میں شرکت کرنے آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ گئے، جو سرکاری ادارہ
تھا۔ مشاعرے کے بعد انہیں دو سو روپے کا چیک دیا گیا، جو اس زمانے میں خاصی معقول رقم تھی۔ مولانا نے رقم لینے سے انکار کردیا اور بتایا ’’میں سی آئی ڈی کے افسروں کی وجہ سے ریل کے سرکاری ڈبے میں بیٹھ کر آیا ہوں۔ (جو ہر وقت ان کے ساتھ لگے رہتے تھے) کرایہ لگا ہی نہیں۔ جانے کا کرایہ تیرہ آنے ہے (ایک روپے سے تین آنے کم) تانگہ میں استعمال نہیںکرتا، پیدل ہی اسٹیشن جاؤں گا، آپ مجھے بس تیرہ آنے دے دیجئے۔‘‘
یہ ایمانداری اور کھراپن ہی تھا، جس کی وجہ سے کوئی مولانا کے سامنے کھڑے رہنے کی جرأت نہیںکرتا تھا۔
مفتی محمد شفیع مرحومؒ نیک سیرت بزرگ تھے۔ آپؒ کی تحریر کردہ قرآن پاک کی تفسیر معارف القرآن اپنی معنویت اور عام فہم انداز کی وجہ سے مقبول ہوئی۔ آپ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ بڑا سبق آموز ہے۔ آپ ایک مرتبہ ریل میں سوار ہونے اسٹیشن پہنچے اور دیکھا کہ جس درجے کا ٹکٹ لے رکھا تھا اس میں بہت بھیڑ تھی۔ پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی اور گاڑی روانہ ہونے والی تھی۔ اب اتنا وقت نہیں تھا کہ باہر جا کر ٹکٹ لے آئیں، مجبوری میں اول درجے کے ڈبے میں سوار ہوگئے۔ آپ نے فیصلہ کر لیا کہ ٹکٹ دیکھنے والا آیا تو اس ٹکٹ کو تبدیل کر کے زائد رقم ادا کردیں گے۔
عجب اتفاق ہوا کہ پورے راستے ٹکٹ چیکر نہیں آیا، یہاں تک کہ آپ کی منزل آگئی۔ آپ اسٹیشن پر اتر کر سیدھے ٹکٹ والی کھڑکی پر گئے اور کلرک سے معلوم کیا کہ دونوں درجوں کے ٹکٹ میں کیا فرق ہے؟ جب یہ معلوم ہوگیا تو آپ نے اتنی ہی رقم کا ٹکٹ کلرک سے خریدا اور اس کے سامنے پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ کلرک ہندو تھا، اسے بڑی حیرانی ہوئی، بلکہ وہ آپ کی حالت کے بارے میں مشکوک ہو گیا۔ وہ باہر آکر مفتی صاحب سے پوچھنے لگا کہ آپ نے ٹکٹ کیوں پھاڑ دیا؟ مفتی صاحب نے اسے بتایا کہ میں دوسرے درجے کا ٹکٹ لے کر اعلیٰ درجے میں سفر کر چکا ہوں، میرے ذمے جو روپے رہ گئے تھے، ان کا ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیا۔ کلرک نے کہا؟ آپ تو اسٹیشن سے باہر آگئے تھے، اب آب سے کون زائد کرائے کا مطالبہ کرتا؟
مفتی صاحب نے جواب دیا ’’جی ہاں، انسانوں میں اب کوئی مطالبہ کرنے والا نہ تھا، لیکن حق کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کا مطالبہ خدا کرتا ہے اور مجھے ایک دن مرنے کے بعد اسے منہ دکھانا ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭