مختصر ہدیہ:
ثمامہ بن اثال کے نزدیک آنحضرتؐ سے بڑھ کر کوئی شخص اور مدینۃ النبیؐ سے بڑھ کر کوئی جگہ قابل نفرت نہ تھی، اسے صرف دو یوم تک قرآن پاک کے استماع کا موقع ملتا ہے۔ رشد و ہدایت کی آواز کان سے ہو کر دل تک پہنچ جاتی ہے۔ جب اسے بلاشرط آزادی مل جاتی ہے، تو خودبخود حاضر ہوتا ہے، اسلام لاتا ہے اور دل و جان کو مختصر ہدیہ کی طرح حضور اقدسؐ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ (رحمۃ اللعالمین: 780/3)
صداقت کا بیج:
قریش کے معزز ترین سردار اور حلم و بردباری کے پیکر حضرت جبیر بن مطعمؓ اسلام لانے سے پہلے غزوئہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں مدینہ طیبہ آئے، اس دوران صحابہ کرامؓ کی نماز اور دوسرے دینی معمولات کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ ایک مرتبہ نماز مغرب میں رسول اقدسؐ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:
ترجمہ: ’’کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خودبخود پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں۔ یا انہوں نے آسمان و زمین پیدا کیا ہے، بلکہ یہ لوگ یقین نہیں لاتے، کیا ان لوگوں کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں یا یہ لوگ حاکم ہیں۔‘‘ (سورۃ الوقعۃ)
یہ آیات سن کر دل کا جو حال ہوا، وہ خود بیان فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’لگتا تھا کہ میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاری: 740/1)
حالانکہ اس وقت اسلام سے بہت دور تھے، کفر کی نمائندگی کر رہے تھے۔ مگر ان قرآنی آیات نے ان کے قلب میں عظمت و صداقت کا جو بیج بو دیا تھا وہ بالآخر بارآور ثابت ہوا اور فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔
شہادت سے پہلے:
حضرت سوید بن صامت انصاریؓ اپنی قوم میں معزز اور شریف النسب انسان تھے۔ علم و حکمت کے سبب قوم کے لوگ انہیں کامل کے لقب سے یاد کرتے۔ زمانۂ اسلام میں یہ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ آئے۔ رسول اقدسؐ نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں خدا اور اسلام کی طرف دعوت دی۔
سوید بولے: شاید آپ کے پاس وہی چیز ہے جو میرے پاس ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: آپ کے پاس کیا چیز ہے؟ سوید بولے: ’’مجلۃ لقمان‘‘ یعنی حکمۃ لقمان۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے سنائو۔ انہوں نے سنایا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ کلام عمدہ ہے، مگر جو کلام میرے پاس ہے، وہ اس سے کہیں افضل ہے۔ وہ ہے قرآن کریم جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرمایا ہے۔ کتاب ہدایت اور نور۔ پھر رسول اکرمؐ نے ان پر قرآن کی تلاوت فرمائی اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بولے یہ کلام تو بہت عمدہ ہے، پھر واپس مدینہ چلے آئے، مگر زیادہ وقت نہ گزرا کہ خزرج کے لوگوں نے انہیں شہید کر دیا۔ (البدایہ والنہایہ: 3147/3)
سدا بہار کلام:
قیس بن عاصم منقریؓ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ سے فرمائش کی کہ آپؐ پر جو کلام اتارا گیا، وہ مجھے سنایئے۔ آپؐ نے ان کے سامنے ’’سورۃ الرحمن‘‘ تلاوت فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ پھر سنایئے۔ آپؐ نے دوسری بار دہرائی۔ انہوں نے پھر فرمائش کی تو آپؐ نے تیسری بار بھی پڑھی۔
قیس بولے: ’’خدا کی قسم! یہ کلام تو سدا بہار ہے، اس میں شیرینی اور مٹھاس ہے۔ نیچے سے سرسبز و شاداب اور اوپر سے پھل دار ہے۔ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔‘‘
پھر کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔ (الجامع لاحکام القرآن: 99/9) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭