خلاصۂ تفسیر
اور (اگر یہ خدشہ ہو کہ جس چیز کو ایک ہی بار دیکھا ہو تو اس کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ ایک بار دیکھنے سے پہچان نہ ہو اور اگر علیٰ سبیل التنزل شناخت کے لئے تکرار مشاہدہ ہی کی ضروری ہے تو) انہوں نے (یعنی پیغمبرؐ نے) اس فرشتے کو ایک اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے (پس اب تو وہ توہم بھی مدفوع ہوگیا، کیونکہ تطابق صورتین سے پوری تعیین ہوگئی کہ ہاں جبرئیل (علیہ السلام) یہی ہیں، آگے اس دوبارہ دیکھنے کی جگہ بتلاتے ہیں کہ کہاں دیکھا یعنی شب معراج میں دیکھا ہے) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس (سدرہ کہتے ہیں بیری کے درخت کو اور منتہیٰ کے معنی ہیں انتہا کی جگہ، حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک درخت ہے بیری کا، ساتویں آسمان میں عالم بالا سے جو احکام و ارزاق وغیرہ آتے ہیں، وہ اول سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں، اسی طرح یہاں سے جو اعمال اوپر چڑھتے ہیں، وہ بھی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے اوپر اٹھا لئے جاتے ہیں، دنیا میں اس کی مثال ڈاک خانہ کی سی ہے کہ آمد و برآمد خطوط وہاں سے ہوتی ہے اور عند سدرۃ المنتہیٰ میں تو امکان رئویت بتلایا تھا، آگے اس مکان کا شرف بتلاتے ہیں کہ) اس (سدرۃ المنتہیٰ) کے قریب جنت الماویٰ ہے (ماویٰ کے معنی رہنے کی جگہ، چونکہ جنت نیک بندوں کے رہنے کی جگہ ہے، اس لئے جنت الماویٰ کہتے ہیں، حاصل یہ کہ وہ سدرۃ المنتہیٰ ایک ممتاز موقع پر ہے، اب بعد تعیین مکان رئویت کے رئویت کا زمانہ بتلاتے ہیں کہ رئویت کب ہوئی، پس فرماتے ہیں کہ) جب اس سدرۃ المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھیں جو چیزیں لپٹ رہی تھیں (ایک روایت میں ہے کہ سونے کے پروانے تھے، یعنی صورت پروانہ کی سی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ فرشتے تھے، یعنی حقیقت ان کی یہ تھی اور ایک روایت میں ہے کہ ملائکہ نے حق تعالیٰ سے اجازت چاہی تھی کہ ہم بھی حضور اکرمؐ کی زیارت کریں، ان کو اجازت ہوگئی، وہ اس سدرہ پر جمع ہوگئے تھے، (الروایات کلہا فی الدر المنثور) اس میں بھی اشارہ ہو سکتا ہے حضور اقدسؐ کے معزز و مکرم ہونے کی طرف اور باقی وہی تقریر ہے جو تقیید سابق میں بیان کی گئی، اب ایک احتمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی حیرت انگیز چیزیں دیکھ کر نگاہ چکرا جاتی ہے، پوری طرح ادراک پر قدرت نہیں رہتی، پس اس صورت میں جبرئیل (علیہ السلام) کی صورت کا کیا ادراک ہوگا، جب یہ ادراک ثانی معتبر نہ ہوا، تو پھر اس خدشہ مذکورہ کا جو جواب ’’لقد راہ نزلۃ اخری‘‘ سے دیا گیا ہے، وہ کافی نہ ہوا، اس احتمال کے رفع کے لئے فرماتے ہیں کہ آپ ان عجائب کو دیکھ کر ذرا نہیں چکرائے اور بالکل متحیر نہیں ہوئے، چنانچہ جن چیزوں کی رئویت کا حکم تھا، ان کی طرف نظر کرنے سے آپ کی) نگاہ نہ تو ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور ( جن چیزوں کے دیکھنے کا حکم جب تک نہ ہوا) نہ (ان کی طرف دیکھنے کو آپ کی نگاہ) بڑھی (یعنی قبل اذن نہیں دیکھا،کذا فی المدارک فی الفرق بین زاغ وطغی، یہ دلیل ہے آپ کے غایت استقلال کی، کیونکہ عجیب چیزوں میں آ کر آدمی یہی دو حرکتیں کیا کرتا ہے، جن چیزوں کے دیکھنے کو کہا جاتا ہے، ان کو تو دیکھتا نہیں اور جن کے لئے نہیں کہا گیا ان کو تکتا ہے، غرض اس میں انضباط نہیں رہتا۔) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭