شیخ قاضی تنوخیؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو جس پر سزا واجب ہو چکی تھی، قید کیا گیا۔ پھر عدالت نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دے دیا۔
ایک شخص نے کہا: ’’میں جیل میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تھا، تاکہ اس کا حال چال معلوم کر سکوں۔ تو میں نے اس آدمی کو شطرنج کھیلتے ہوئے دیکھا، جس کی گردن اڑانے کا حکم دیا گیا تھا۔‘‘
میں نے جیل میں اپنے دوست سے یہ بات کہی اور مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ اس شطرنج کھیلنے والے کی گردن اڑانے کا حکم دیا گیا ہے کہ:
’’یہ انسان کتنا لاپروا ہے، قیدی ہونے کے باوجود شطرنج کھیل رہا ہے۔‘‘
میرے دوست نے کہا: ’’یہی تو ہے جس کی گردن اڑانے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
مجھے بہت زیادہ تعجب ہوا۔ ہم جو باتیں کر رہے تھے، وہ آدمی اسے سن رہا تھا تو اس نے شطرنج کی گوٹیوں میں سے ایک گوٹ کو اٹھایا اور کہنے لگا: ’’یہ زمین میں کہاں گرے گی، سو اس کے لیے ہزار راستے ہیں اور اپنے ہاتھ سے گوٹ کو پھینک دیا۔‘‘
میں جیل سے باہر نکلا اور اس کی بات پر سوچتا رہا تو اس دن شام کو فوج نے فتنہ و فساد برپا کر کے بغاوت کی، قید خانے کھول دیئے گئے اور اس آدمی سمیت سارے قیدی رہا کر دیئے گئے اور حق تعالیٰ نے اس کو قتل ہونے سے بچا لیا۔ (الفرج بعد الشدۃ للتنوخی: 126/4)
گیارہویں منزل سے گرگیا:
لبنان میں ایک شخص کسی عمارت میںکام کرتا تھا۔ وہ جو بھی کام کرتا تھا اخلاص کے ساتھ کرتا تھا اور اس میں ہمہ تن مصروف رہتا تھا۔ سو کسی بھی ہنر کا ہاتھ میں ہونا مفلسی سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔
چناں چہ وہ اس اونچی عمارت میں کام کرنے آیا جو کہ کئی منزلہ تھی۔ اس نے دیوار میں تختے رکھنے شروع کیے، یہاں تک کہ اسے ان تختوں پر ٹھہرنے اور کھڑے ہوکر کام کرنے کا پورا یقین ہوگیا۔ جب وہ گیارہویں منزل پر پہنچا تو اچانک اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ اس اونچائی سے ایک ہی لمحے میں زمین پر آکر گرا، لیکن خدا تعالی کی رحمت نے اس کو گھیر لیا۔ اس طرح کہ گرنے کے بعد وہ اپنے قدموں پر کھڑا کا کھڑا رہ گیا اور اس کو صرف ایک معمولی سی خراش آئی۔ یہ بات لوگوں کے درمیان ’’لبنان‘‘ میں بہت مشہور ہوگئی۔
ابو عمر و بن علائؒ فرماتے ہیں: ’’میں حجاج سے بھاگ کر مکہ گیا، کیوں کہ میرے چچا حجاج کے ہاں ملازم تھے۔ پس میرے چچا فرار ہو کر نکلے تو میں بھی بھاگ گیا۔ انہوں نے میرا پیچھا کیا۔ میں کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ ایک دیہاتی یہ نظم پڑھ رہا تھا:
’’اے برے احوال میں بہت کم صبر کرنے والے! اور غم و فکر میں بہت زیادہ گھلنے اور گھبرا جانے والے! تم مصیبتوں میں تنگ دل نہ ہو کہ کبھی کبھار مصیبتوں کے بادل بغیر کسی حیلے کے چھٹ جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہر مصیبت پر صبر کا عادی بناؤ! کہ بے شک صبر کرنے میں تدبیر اختیار کرنے والے کے لیے راحت ہی راحت ہے۔ بعض اوقات لوگ ایسی بات سے پریشان ہو جاتے ہیں! جس میں ایسی نجات ہوتی ہے، جیسے رسیاں کھل جاتی ہیں۔‘‘
میں نے اس دیہاتی سے کہا: ’’رک جاؤ کیا بات ہے؟‘‘
وہ کہنے لگا: ’’حجاج کو موت نے آلیا ہے۔‘‘
تو میں سمجھ نہ پایا کہ میں کسی بات پر خوش ہو جاؤں حجاج کی موت پر یا کعبہ شریف میں مصیبت سے خلاصی پانے پر۔ (حوالہ بالا)
٭٭٭٭٭