قربانی ہر ایسے مسلمان پر واجب ہے، جو عاقل، بالغ، مقیم ہو (مسافر نہ ہو) اور اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال ہو اور اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد بھی ہو۔ یہ مال چاہے سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت ہو یا ضرورت (حاجت) سے زائد گھریلو سامان ہو یا رہائش کے مکان سے زائد مکانات اور جائیدادیں وغیرہ ہوں۔ قربانی کے لیے اس مال پر سال بھر کا گزرنا بھی شرط نہیں ہے اور نہ اس کا تجارتی ہونا شرط ہے۔
اگر کوئی شخص قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن بھی کسی صورت سے مال کا مالک ہو جائے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔ بچہ اور مجنون (پاگل) کی ملکیت میں اگر اتنا مال ہو تو بھی ان دونوں پر یا ان کی طرف سے ان کے ولی پر قربانی واجب نہیں۔
اگر کوئی شخص شرعی قاعدہ کے مطابق مسافر ہو یعنی قربانی کے دنوں میں اپنے وطن سے اڑتالیس میل یا اس سے زائد کی مسافت پر ہو تو اس پر بھی قربانی واجب نہیں، اگر قربانی کے آخری دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھر آگیا اور وہ صاحب حیثیت لوگوں میں سے ہے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو صاحب حیثیت نہیں یعنی مذکورہ بالا نصاب نہیں ہے تو شرعاً اس پر قربانی واجب نہیں، لیکن اگر اس نے قربانی کے دنوں میں قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اسی جانور کی قربانی اس پر واجب ہو جاتی ہے، کیوں کہ غریب آدمی کے لیے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدنا نذر کے حکم میں ہو جاتا ہے، جس کا پورا کرنا بندے پر واجب (ضروری) ہو جاتا ہے۔
ضرورت اصلیہ سے مراد وہ اشیا ہیں، جو جان یا آبرو سے متعلق ہوں، یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً کھانا پینا، کپڑے پہننا اور رہنے کا مکان۔ اہل صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشے کے اوزار، باقی بڑی بڑی دیگیں، بڑے بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ اور ٹیلی ویژن، وی سی آر وغیرہ یہ اسباب ضروریہ میں داخل نہیں ہیں، اس لیے ان کے مالک پر قربانی واجب ہوگی، جب کہ ان کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں۔
جس طرح مردوں پر قربانی واجب ہے، اسی طرح عورتوں کے ذمے بھی قربانی واجب ہے، بشرطیکہ ان کے پاس ذاتی زیورات ہوں یا اتنا مال یا جائیداد ہو جو نصاب کے برابر ہو۔ قربانی صرف اپنی طرف سے واجب ہے، اولاد کی طرف سے واجب نہیں (کسی اور عزیز واقارب کی طرف سے بھی واجب نہیں) مثلاً کسی کی دس اولاد ہیں اور سب ایک ساتھ رہتے ہیں، باپ کی زندگی میں صرف باپ پر قربانی واجب ہوگی، یعنی اپنے نام سے وہ قربانی کرے اور اگر بیوی صاحب حیثیت (صاحب نصاب) ہے تو اس کو بھی اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ شوہر کی قربانی بیوی کی طرف سے یا بیوی کی قربانی
شوہر کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا ضروری ہے۔
بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ کسی سال اپنے نام سے قربانی کر لیتے ہیں اور کسی سال اپنی بیوی کی طرف سے یعنی ہر سال نام بدلتے رہتے ہیں، یہ جائز نہیں۔ اگر صاحب نصاب ہے تو اس کو اپنی طرف سے قربانی کرنا ضروری ہے۔ اگر اپنے نام سے نہیں کی کسی دوسرے کے نام سے کر لی تو اس کے ذمہ وجوب باقی رہ جائے گا، دوسروں کے نام سے کرنے میں خود اس کا وجوب ادا نہ ہوگا۔
اگر باپ کی وفات ہو چکی اور اولاد ایک ساتھ رہ کر کاروبار کرتی ہیں تو اگر ان کا مال مشترکہ یا جائیداد تقسیم کرنے کے بعد ہر ایک صاحب نصاب ہو جاتا ہے تو ہر ایک بالغ اولاد کو اپنے اپنے نام سے قربانی کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی ایک بھائی کی طرف سے قربانی کی تو بقیہ بھائیوں کے ذمہ وجوب باقی رہ جائے گا۔
اگر ماں باپ پر قربانی واجب تھی اور وہ نہ کر سکے تو انہیں وصیت کرنا ضروری ہے۔ اگر وصیت کرکے انتقال کیا تو ان کی طرف سے ان کے مال میں سے قربانی کرنا ضروری ہے اور اگر وصیت نہیں کی ہے تو ان کی طرف سے واجب نہیں، اگر کوئی شخص ان کی طرف سے قربانی کردے تو یہ قربانی نفل ہوگی، اس کا واجب ساقط نہ ہوگا، صرف اس نفل قربانی کا ثواب ان کو پہنچ سکتا ہے۔
مسافر پر قربانی واجب نہیں۔دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ سفر میں گزری، لیکن بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے سفر ختم ہوگیا، یعنی گھر پہنچ گئے یا پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کرلی تو اب قربانی کرنا واجب ہو گیا، اسی طرح اگر پہلے اتنا مال نہ تھا، اس لیے قربانی واجب نہ تھی، پھر بارہویں تاریخ ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کہیں سے مال دستیاب ہوگیا تو قربانی واجب ہو گئی۔
قربانی فقط اپنی طرف سے(جبکہ صاحب نصاب ہو) کرنا واجب ہے اور اولاد کی طرف سے واجب نہیں بلکہ نابالغ اولاد اگر مالدار بھی ہو تب بھی اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں، نہ اپنے مال میں سے نہ اس کے مال میں سے۔ اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو نفل ہو گئی، لیکن اپنے ہی مال میں سے کرے، اس کے مال میں سے ہرگز نہ کرے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭