سسرالی خواتین وزیرخانم کا بیٹا چھیننے کے درپے ہوگئیں

قلعہ میمون سے واپس آتے میں ایک پل کے لئے وزیر خانم کے دل میں خیال آیا کہ نواب یوسف علی خان بہادر سے یہ درخواست کرنا چاہئے کہ آغا مرزا تراب علی مرحوم کی حویلی جو بحق سرکار واپس لے لی گئی تھی، شادی تک کے لئے پھر اسے مل جاوے۔ لیکن تھوڑے سے تامل نے اسے اس ارادے سے باز رکھا۔ اگر نواب صاحب قبلہ کی مرضی یہ ہوتی تو حویلی کی بابت حکم انہوں نے خود ہی صادر کر دیا ہوتا۔ سچ پوچھو تو جو مجھے مل گیا ہے وہ بسا غنیمت ہے، اس نے اپنے دل میں کہا۔
راحت افزا کی شادی مقررہ تاریخ اور وقت پر مناسب اہتمام اور دھوم دھام کے ساتھ وقوع پذیر ہوئی۔ بارات کے استقبال کے لئے کوکبہ شہر یاری تو موجود تھا ہی ، نواب یوسف علی خان کی طرف سے دولہا، دلہن کے جوڑے اور جہیز کے برتن باسن، اور اعلیٰ حضرت فرمانروائے رامپور کی طرف سے دس اشرفیاں بطور سلامی دولہا، اور اس کے تمام گھر والوں کے لئے تشریفی جوڑے بھی تھے۔ پھوپھیا ساس جی اور نند جی بھی جبراً قہراً رسومات میں شریک ہوئیں۔ اگلے دوپہر کے بعد راحت افزا روتی پیٹیتی رخصت ہوئی۔ نواب مرزا نے بھائی کی حیثیت سے اسے سہرا باندھا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ رخصتی جو انہوں نے بطور خاص لکھی تھی، اس میں بھی انہوں نے راحت افزا کو بڑی بہن کہا۔ رخصتی کے اشعار بہن کے بچھڑنے کے رنج، اور بچپن سے لے کر شعور کی عمر تک اس کی ناز برداریوں اور تلطف و مدارا کی یادوں کی ہلکی بنفشی گلابی روشنی سے بھرے ہوئے تھے۔ حبیب النسا اور وزیر خانم صورت دیوار چپ تھیں۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ روئیں مگر ناچار چپ تھیں۔ گھر میں کسی تجربہ کار اور معاملہ فہم سن رسیدہ مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے سارے کام انہیں کے ذمہ تھے۔
چوتھی اور پھر چوتھی کے بعد کی رسموں میں کئی دن بجلی کی سی تیزی گزر گئے۔ پھوپھیا ساس اور نند کی خفگی ویسی ہی تھی۔ وزیر سے ان کی بول چال نہ تھی، لیکن اب انہوں نے شاہ محمد آغا کو اپنی توجہ کا مرکز بیش از بیش بنانا شروع کر دیا تھا۔ محمد آغا اب سال سے کچھ اوپر کے تھے۔ ابھی غوں غاں کرتے تھے، لیکن بات خوب سمجھ لیتے تھے اور لوگوں کو خوب پہنچاننے لگے تھے۔ نور فاطمہ انہیں طرح طرح کے بہانوں سے اپنے پاس بلواتی اور سارا سارا دن اپنے پاس رکھتی۔ انہیں کھلاتی پلاتی، نہلاتی دھلاتی حتیٰ کہ سونے کے لئے بھی ماں کے پاس نہ جانے دیتی۔
وزیر ان باتوں کو خوب سمجھتی تھی، لیکن جہاندیدہ پھوپھیا ساس اور زبان دراز نند سے کھلا جھگڑا مول لئے بغیر اس صورتحال کا تدارک ممکن نہ تھا۔ راحت افزا کی شادی کی بات اور تھی لیکن بچے کے معاملے میں نواب صاحب سے کچھ عرض کرنا وہ اپنے مرتبہ وقار و تمکین سے فر و تر جانتی تھی۔ وہ چپ چاپ مناسب وقت کے انتظار میں تھی۔ رام پور چھوڑ دینا اور دہلی چلا جانا بعید از امکان تو نہ تھا، لیکن محمد آغا کی کم عمری اور پھوپھی سے اس کی مانوسیت آڑے آتی تھی۔ وزیر کو خوف تھا کہ اتنا کم عمر بچہ شاید اس کے تنہا ہاتھوں ٹھیک سے پل نہ پائے گا۔ یا اس بات کا امکان تو تھا ہی کہ رام پور چھوٹ جانے کے بعد شروع میں کئی مہینے تک وہ پھوپھی اور دادی کو یاد کر کے ہڑکتا رہے اور شاید بیمار بھی پڑ جائے۔
نواب مرزا اس بات سے بے خبر نہ تھا کہ اس کی ماں کے دل میں کشاکشوں اور الجھنوں کا ہجوم ہے۔ جو بظاہر تو نظر نہیں آتا، لیکن اندر ہی اندر اس کے تصورات کی دنیا میں زہریلے سانپوں اور دھواں اگلنے والے اژدہوں کی طرح لہراتا رہتا ہے۔ اس کی اماں جان کے چہرے پر وہ شگفتہ شباب اب نہ تھا جو محمد آغا کی پیدائش سے کچھ پہلے اور پھر اس کی پیدائش کے بعد، اور شعر گوئی کے مواقع دوبارہ ملنے کے سبب اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آغا صاحب مرحوم کی ناز برداریوں اور نیک خلقی اور شرافت نفسی کے باعث ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ وزیر خانم جو ہمیشہ اپنی عمر سے بہت کم لگتی تھی، اب اچانک اپنی عمر سے زیادہ لگنے لگی تھی۔ نواب مرزا اکثر فکر میں رہتا کہ اماں جان کے دکھوں کا مداوا کیا ہو اور یہ کیونکر ہو۔ ایک بات تو اسے صاف نظر آتی تھی۔ رامپور میں رہ کر اس کی ماں کو سکون قلب نہ مل سکتا تھا۔ سکون قلب تو دور رہا، یک گونہ عافیت کا بھی احساس ممکن نہ تھا۔ اور یہ بات بھی صاف تھی کہ خود اس کی ماں ان قضیوں کو حل کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ بجا کہ ایک بار اماں جان نے کہا تھا کہ میں رامپور میں نہ رہوں گی۔ لیکن وہ ایک وقتی سی بات تھی، لمحاتی کیفیت میں منہ سے نکل گئی تھی۔ اس کے بعد تو اماں جان نے کبھی وہ تذکرہ نہ چھیڑا تھا۔
بہت سوچ کر نواب مرزا نے فیصلہ کیا کہ منجھلی خالہ صاحب کے سامنے بات رکھی جائے۔ لیکن اس طرح کہ اماں جان کو ابھی خبر نہ ہو۔ یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر نواب مرزا پہلے ماں کے گھر گیا کہ وہاں کے تازہ ترین حالات پر مطلع ہو جائے۔ وہاں پہنچ کر اس کی تشویش اور تردو میں بھی اشتداد پیدا ہوا کہ وہاں تو حالات بد سے بدتر ہو گئے تھے۔ اس کی ماں نے کل رات سے کھانا نہ کھایا تھا اور نہ ہی محمد آغا گزشتہ رات سے اس کے پاس آیا تھا۔ معلوم ہوا پھوپھی جان نے اسے وہیں کھلا پلا کر اپنے پاس سلا لیا تھا اور محمد آغا نے ایک بار بھی ماں کے پاس جانے کی ضد نہ کی تھی۔ نواب مرزا کے سامنے وزیر خانم آنسوئوں سے تو روئی، لیکن اس کی آنکھوں کی سرخی اور منہ کی زردی صاف پتہ دیتی تھی کہ وہ کئی بار رو چکی ہے۔
’’اماں جان، وہ لوگ محمد آغا سلمہ، کو آپ سے لے لینا چاہتے ہیں‘‘۔ نواب مرزا نے کہا۔
وزیر کی آنکھیں بھر آئیں۔ ’’معلوم ہوتا ہے میرا مقدر یہی ہے کہ بچے جنوں اور پھر ان سے ہاتھ دھو لوں‘‘۔
’’خدانخواستہ۔ آپ ایسا کیوں کہتی ہیں۔ بھلا میں بھی تو آپ کا جایا ہوں۔ مجھے کوئی آپ سے دور نہیں کر سکتا‘‘۔
وزیر نے آنکھیں میچ کر اشکوں کی بوندوں کو آنکھوں ہی میں ٹھہرانا چاہا لیکن اس کے گال آنسوئوں سے تر ہونے لگے۔ اس نے ڈوپٹے کو منھ پر لپیٹتے ہوئے سر جھکا کر کہا ’’جان مادر وہ زمانہ اور تھا۔ انگریز کے خوف سے کسی میں جرات نہ تھی کہ تمہیں اپناتا۔ مشہور تھا کہ فرنگی حاکمان دور پار تمہیں مروا دینا چاہتے ہیں۔ اور لوہارو والوں کو تو یوں بھی تمہارا وجود ایک آنکھ نہ بھاتا تھا‘‘۔
’’چلئے یوں ہی سہی۔ لیکن ہمیشہ ہمیش کے لئے میں آپ ہی کا ہوں۔ آپ کا بیٹا ہوں اور اپ کا سایہ میرے سر پر رہے تو میں کچھ نہ کچھ کر کے دنیا کو دکھا دوں گا کہ میری رگوں میں دوڑتا پھرتا نواب شمس الدین احمد خان شہید کا خون رائیگاں نہیں گیا ہے۔ اور آپ کے لئے میں آفات زمانہ کے خلاف سد سکندری بن جائوں گا۔ آپ کو کسی اور کی پروا کیوں ہو؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment