سرفروش

عباس ثاقب
اس موقع پر میں نے مداخلت مناسب سمجھی ’’تسی سہی آکھ دے او بنواری جی، اے مسلّے مہا کائیر نے، بس پھلمی جنانیاں نال ٹیم پاس کرن آیا ہویا اے ٹولا!‘‘۔ (آپ صحیح کہہ رہے ہیں بنواری جی، یہ مسلمان انتہائی بزدل ہیں، بس فلمی عورتوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنے آیا ہے یہ ٹولا)۔
بنواری نے تو میری مداخلت کی کوئی خاص پذیرائی نہیں کی۔ البتہ سوامی میری بات سن کر خوش ہو گیا۔ اس نے گرم جوشی سے میری رائے کی تائید کی۔ اسے مزید خوش کرنے کے لیے میں نے ہندوستان ٹائمز اور دیئنک جاگرن کی ایک ایک کاپی بھی خرید لی۔
میں اس تمام وقت میں سفارتخانے کا مسلسل جائزہ لیتا رہا تھا۔ اچانک میرا دل زور سے دھڑکا۔ ہمارے پاس سے گزرنے والی ایک گاڑی کی عقبی سیٹ پر موجود شخص کی شکل و صورت اور حلیہ مجھے بالکل وہی لگا تھا، جو مجھے کراچی میں ذہن نشیں کرایا گیا تھا۔ وہ گاڑی میری توقع کے عین مطابق سفارتخانے کے مرکزی دروازے کے سامنے رکی اور ڈرائیور نے اتر کر گاڑی کا عقبی دروازہ کھولا۔ لگ بھگ چالیس سال کے وہ لمبے تڑنگے اور وجیہ و شکیل صاحب، جن کانام ہم اختر خان فرض کر لیتے ہیں، گاڑی سے اترے اور سفارتخانے میں داخل ہوگئے ۔ ڈرائیور نے دوبارہ اسٹیئرنگ سنبھالا اور گاڑی کو سفارتخانے کے بغل میں واقع ایک گیٹ سے اندر لے گیا۔
تبھی میں نے ایک عجیب بات محسوس کی۔ میری طرح سوامی کی نظریں بھی اس گاڑی اور اس میں آنے والے اختر صاحب کی نقل و حرکت پر جمی رہی تھیں۔ تاہم وہ بظاہر بنواری جی سے بھی پوری دل جمعی سے باتیں کر رہا تھا۔ جلد ہی بنواری جی وہاں سے چل دیئے اور سوامی نے بھی مجھے نظر انداز کر کے دوبارہ کتاب اٹھا لی۔ اس دوران میں ویسپا اسکوٹر پر سوار پختہ عمر کا ایک کالا بھجنگ شخص پتھارے کے پاس آیا۔ سوامی نے شناسا نظروں سے اسے دیکھا اور پُرجوش لہجے میں مخاطب ہوا ’’کیا حال ہے الوک جی؟ تمہاری پھٹ پھٹی تو تنگ نہیں کر رہی؟‘‘۔
’’تم کو کتنا بار بولا ہے سوامی، ہمارا پرنسس کو اس ڈرٹی نام سے نہ بلاؤ۔ یہ ویسپا ہے، ورلڈ بیسٹ اسکوٹر!‘‘۔ ان کالے صاحب نے غصیلے لہجے میں تنبیہ کی۔ اس کا بولنے کا انداز اسے جنوبی ہندوستان کا باسی بتا رہا تھا۔
سوامی نے فوراً دفاعی لہجہ اختیار کرلیا ’’تم تو ناراج ہوگئے الوک بابو، چلو اب کے پھٹ پھٹی نہیں پکاروں گا اس کو۔ یہ بتاؤ میرے لیے کوئی کھاس کھبر تو نئیں ہے؟‘‘۔
الوک نے اس کی معذرت قبول کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ’’نہیں، سب روٹین تھا!‘‘۔
مجھے ان کی گفتگو کا مفہوم اس وقت سمجھ نہیں آیا۔ تھوڑی سی گپ شپ کے بعد آلوک اپنے اسکوٹر پر وہاں سے چل دیا۔ اب میرے لیے بھی مزید وہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ویسے بھی میرا ابتدائی مقصد تو پورا ہو ہی چکا تھا۔ چنانچہ میں سوامی کو پرنام کر کے سفارتخانے کی طرف چل پڑا۔ البتہ سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے مرکزی دروازے کی طرف نظر ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ فاصلہ مزید طے کرنے کے بعد میں نے ایک سائیکل رکشا روکا اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار چلنے کو کہا۔ بلند پایہ بزرگ کی تربت پر حاضری اور درود و فاتحہ پیش کرنے کے بعد میں نے دن کا پیشتر حصہ مزار کے روح پرور ماحول میں گزارا اور دوپہر کو وہیں لنگر سے پیٹ بھرا۔
سہ پہر ساڑھے چار بجے کے قریب میں نے پھر ایک سائیکل رکشا والے کو زحمت دی اور سفارتخانے والے علاقے کا رخ کیا اور پہلے کی طرح عمارت سے فرلانگ بھر پہلے ہی اتر گیا۔ مجھے ایک بار پھر سفارتخانے پر نظر رکھنے کے لیے کوئی مناسب جگہ درکار تھی۔ وہاں سے سوامی کا کھوکھا دکھائی دے رہا تھا، لیکن مفت میں اخبار پڑھنے کا ٹوٹکا شام کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ویسے بھی میں کسی سے اس حد تک واقفیت نہیں بڑھانا چاہتا تھا کہ وہ میری حتمی شناخت کے قابل ہو جاتا۔
بالآخر مجھے سڑک کے کنارے ایک چبوترا نما جگہ پر چٹائی بچھا کر بیٹھے ایک مالشیے کا گاہک بننا پڑا۔ اس نے میرے پوچھنے پر سرسوں کے تیل سے سر پر چمپی اور جسم پر مالش کے ریٹ بتائے۔ تاہم میں نے اسے تھکن دور کرنے کے لیے کمر، بازو، گردن اور کندھے دبانے کی فرمائش کی اور تھوڑی سودے بازی کے بعد اجرت بھی طے کرلی۔
غالباً یو پی سے تعلق رکھنے والا وہ دھان پان سا شخص، اپنے فن کا ماہر نکلا اور کوئی خاص ضرورت نہ ہونے کے باوجود مجھے جسم دبائے جانے پر بہت سکون ملا۔ اس کی مہارت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں مسلسل سفارتخانے کا بھی جائزہ لیتا رہا۔ اسی دوران میری نظر سوامی کے کھوکھے پر پڑی۔ مجھے اس کے عقب میں اسکوٹر کھڑا دکھائی دیا۔ میں نے زیادہ غور سے دیکھا تو سوامی کے پاس اسٹول پر براجمان الوک بھی نظر آگیا۔ میں نے سوچا کہ ان دونوں میں خاصی گہری دوستی لگتی ہے، لیکن پھر مجھے ادراک ہوا کہ ان دونوں کی باہمی گفتگو میں ایسے گہرے اور پُر خلوص دوستوں والی اپنائیت محسوس نہیں ہوئی تھی کہ وہ صبح شام آپس میں ملاقات کرتے۔
کچھ ہی دیر بعد میں نے صبح والی گاڑی سفارتخانے کے مرکزی دروازے کے سامنے آکر رکتی دیکھی۔ دو منٹ بعد اختر خان عمارت سے نکلے اور گاڑی میں آکر بیٹھ گئے اور گاڑی میری مخالف سمت میں چل پڑی۔ تبھی میں یہ دیکھ کر چونک پڑا کہ الوک بھی کھوکھے کے پیچھے سے اپنا اسکوٹر نکال کر گاڑی کے پیچھے پیچھے چل پڑا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment