قربانی کے صحت مند اور وزنی جانور بیرون ملک بھیجے جانے لگے

اقبال اعوان
مویشی مایکسپورٹ پر پابندی نہ لگنے کے باعث قربانی کے صحت مند اور وزنی جانور بڑی تعداد میں بیرون ملک بھیجے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے کراچی میں بلدیہ ٹائون مویشی منڈی اس کاروبار کا گڑھ بن گئی ہے۔ بلدیہ ٹائون منڈی شہر کی سستی مویشی منڈی ہے، جو بیرون ملک جانور بھجوانے والوں نے مہنگی کرا دی ہے۔ جس کے باعث مقامی لوگ کراچی کی دوسری منڈیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ مذکورہ منڈی سال بھر لگتی ہے اور شہریوں کو اس منڈی سے جانوروں کا گوشت فراہم کیا جاتا ہے۔ منڈی کی اصطلاح میں گوشت کے حصول کیلئے سارا سال لائے گئے جانوروں کو ’’کٹائو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت بقرعید کے جانوروں کے ساتھ ساتھ کٹائو مال پر بھی زائد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے جانوروں پر اخراجات زیادہ آرہے ہیں اور قصائی بڑا اور چھوٹا گوشت من مانے ریٹ پر فروخت کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت سے اس منڈی میں جانور 30 فیصد مہنگا فروخت ہو رہا ہے۔ لگ بھگ 80 ہزار جانور یہاں لایا جا چکا ہے اور دو سے سوا دو لاکھ مزید جانوروں کی آمد متوقع ہے۔
وفاقی یا صوبائی نگراں حکومتوں کی جانب سے بیرون ملک جانور بھیجنے پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، جس کے باعث جہاں ملک بھر میں جانوروں کی نقل و حمل جاری ہے، وہیں ملک بھر سے جانور بڑے منظم انداز میں افغانستان، ایران اور خلیجی ممالک بھیجے جارہے ہیں۔ ان ممالک میں بھی بقرعید کیلئے جانوروں کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عام دنوں میں کم جانور ہی بیرون ملک بھیجا جاتا ہے، تاہم بقر عید کے لیے کراچی آنے والے گائے، بیل، بکرے اور دنبے بڑی تعداد میں بلوچستان بھجوائے جارہے ہیں۔ ایک جانب جانور کی کمی سے جانور مہنگا ہو رہا ہے، تو دوسری جانب صحت مند جانور چھانٹ کر اضافی رقم دے کر خریدا جاتا ہے اور یوں مارکیٹ خراب ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی خریدار سے بھی جانور کی زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے۔ بیرون ملک جانور بھجوانے والے جہاں سندھ اور پنجاب سے چھوٹے بڑے جانور وہاں کی منڈیوں سے خرید لیتے ہیں، اسی طرح بقرعید کے حوالے سے کراچی کی مویشی منڈیوں میں آنے والے صحت مند جانوروں کی چھانٹی کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہر جانور پر 15 سے بیس فیصد زائد منافع بیوپاری کو ملتا ہے۔ پشاور سے بھی جانور افغانستان بھیجے جاتے ہیں۔ پہلے چمن بارڈر سے زندہ جانور بقرعید پر، جبکہ عام دنوں میں گوشت بھیجا جاتا تھا۔ اب بڑا اور چھوٹا سوائے اونٹ کے سارا جانور جاتا ہے۔ جبکہ کوسٹل ایریا بلوچستان میں تربت کے قریب جانوروں کو ڈمپ کیا جاتا ہے اور پاک ایران بارڈر سے کشتیوں میں ایران بھیجا جاتا ہے اور وہاں سے خلیجی ممالک بھی بھیجا جاتا ہے۔ جانور بیرون ملک بھیجنے پر پابندی نہ ہونے پر روزانہ ٹرکوں میں جانور بھیجے جارہے ہیں۔ سندھ، پنجاب اور کراچی بھر کی منڈیوں سے جانور مواچھ گوٹھ، بلدیہ مویشی منڈی لایا جاتا ہے، جہاں سے تین علاقوں نادرن بائی پاس، رئیس گوٹھ، حب چوکی کے علاقے میں بنے پلاٹوں کے اندر انہیں ڈمپ کیا جاتا ہے اور یہاں سے ایران اور افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا کہ رحیم بلوچ اور جبار بلوچ سمیت 5 بڑے ٹھیکے دار ایران اور خلیجی ممالک کو جانور بھیجتے ہیں۔ جبکہ ارباز خان، جہاں زیب خان اور جمیل اللہ افغانستان جانور بھجواتے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے صورت حال جاننے کے لیے بلدیہ مویشی منڈی جاکر بھی معلومات کیں۔
بلدیہ ٹائون کی یوسی 37 کے وائس چیئرمین راجہ منشا اور کونسلر رحیم بادشاہ کا کہنا تھا کہ بیرون ملک جانور بھجوانے کا سلسلہ اب بھی زیادہ ہے۔ جبکہ ملک بھر سے آنے والے جانوروں پر جگہ جگہ اتنا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے کہ سستی منڈی مہنگی مارکیٹ بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پابندی ہوتی تھی تب بھی ملی بھگت سے جانور بیرون ملک اسمگل ہوتے تھے۔ اب ملک بھر سے آنے والے ہزاروں چھوٹے بڑے جانور بیرون ملک بھیجے جارہے ہیں اور بقر عید کے جانور مہنگے ہورہے ہیں۔ بیوپاری اکبر کا کہنا تھا کہ ’’یہاں پر باقاعدہ بیرون ملک جانور بھجوانے والوں کے ایجنٹ موجود ہوتے ہیں اور ٹرک سے مال اترتے وقت آکر چھانٹی کرتے ہیں۔ مالک کو زیادہ رقم ملے اور جانور جلدی فروخت ہو جائے تو اس کے اخراجات بچ جاتے ہیں۔‘‘ حاجی سومار کا کہنا تھا کہ ’’اس منڈی میں بقرعید پر ایک لاکھ بکرا اور دنبہ آتا تھا۔ اب چند سو رہ گیا ہے۔ بقرعید کا مال زیادہ تر بلوچستان جا چکا ہے۔‘‘ دوران سروے منڈی میں دیکھا گیا کہ ڈی ایم سی ویسٹ کی جانب سے مویشی منڈی کا ٹھیکہ دیا گیا ہے جو 5 کروڑ 18 لاکھ کا ہے۔ اس ٹھیکے سے قبل کٹائو مال کیلئے 50 روپے فی بڑا جانور جبکہ بکرا اور دنبہ وغیرہ 25 روپے انٹری فیس پر اندر آتا تھا۔ اب بڑے جانور کے 1600 روپے اور چھوٹے جانور کی 700 روپے وصولی کی جارہی ہے۔ منڈی مافیا مختلف طریقوں سے 5 ہزار روپے فی بجلی کا کنڈا بھی بیوپاریوں سے وصول کر رہی ہے۔ سڑکوں، فٹ پاتھ، گلی کوچوں اور خالی پلاٹوں پر بھی بیوپاریوں کو رکھا جارہا ہے اور فی جانور 5 ہزار روپے وصول کیا جارہا ہے۔ یہاں پینے کے پانی کا ٹینکر 5 ہزار اور کھارے پانی کا ٹینکر ساڑھے تین ہزار میں دیا جارہا ہے۔ ہوٹل والوں، دکاندار، نائی، پرچون، کولڈ ڈرنک، جنرل اسٹور، نجی جانوروں کے ڈاکٹر سے بھی فی دکان 5 ہزار وصولی کی گئی ہے۔ بیوپاری ایوب شاہ کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ سال سے اس مرتبہ جانور 30 فیصد مہنگا ہے۔‘‘ بلدیہ ٹائون مویشی منڈی کی چونکہ چار دیواری نہیں ہے، اس لئے اکثر رات کو لوٹ مار کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ سعید آباد تھانے کی ایک موبائل یا چند سپاہی مرکزی دروازے پر موجود ہوتے ہیں جو آر سی ڈی ہائی وے کے جانب واقع ہے۔ بیوپاری مہربان کا کہنا تھا کہ ’’منڈی میں صفائی ستھرائی نہیں ہورہی ہے بلکہ گوبر اور کچرے پر جانور باندھے جارہے ہیں۔‘‘ جان محمد کا کہنا تھا کہ ’’کھارا پانی پینے سے جانور بیمار ہورہے ہیں۔ پینے کا میٹھا پانی مہنگا ہے اور کم فراہم کیا جارہا ہے،‘‘ بیوپاری جاوید کا کہنا تھا کہ ’’یہاں پر کھانے پینے کی اشیا اور چارا، بھوسہ مہنگا ہے۔‘‘ محبوب اور حاجی رئیس کا کہنا تھا کہ ڈی ایم سی ویسٹ نے ٹھیکہ تو دے دیا، اب منڈی میں کچرا اٹھانے کا کام کون کرائے گا۔ اگر بارش ہو گئی تو کیا ہوگا۔ اللہ بخش کا کہنا تھا کہ ’’بقرعید کے جانور آتے ہی پیدا گیری تیز ہو گئی ہے‘‘۔ رفیق کا کہنا تھا کہ ’’ابھی جانور کم مہنگا ہے اور بعد میں زیادہ مہنگا ہو جائے گا۔‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment