امریکہ پر انحصار کی پالیسی کو بتدریج ختم کرنے کا فیصلہ

امت رپورٹ
پاکستان نے امریکہ پر انحصار کی پالیسی کو بتدریج ختم یا کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملٹری سمیت مختلف شعبوں میں روس سے ہونے والے معاہدے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ان معاملات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ خود امریکہ کے رویے نے پاکستان کے لئے اس کے سوا کوئی آپشن نہیں چھوڑا کہ اب وہ واشنگٹن کے بجائے اپنے دیگر اتحادی تلاش کرے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان پہلی بار اس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، جس کے تحت پاکستانی فوجیوں کو روسی عسکری تربیتی اداروں میں تربیت کی اجازت ہو گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی بے رخی کے بعد اس وقت پاکستان کو جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو جدید ملٹری ٹیکنالوجی روس کے پاس ہے ، وہ چین اور حتیٰ کہ امریکہ کے پاس بھی موجود نہیں۔ پاکستان، ایس یو 35 لڑاکا طیاروں، ٹی 90 ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں سمیت جدید ملٹری ہارڈ ویئر کی خریداری کے سلسلے میں ماسکو کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور روس کے درمیان مشترکہ فوجی تربیت کے معاہدے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ماسکو سے جدید ٹیکنالوجی کے حامل جو ہیلی کاپٹر، طیارے، ٹینکس اور دیگر فوجی آلات خریدے جائیں گے، اس کو چلانے کی تربیت پاکستانی نیوی، ایئر فورس اور بری فوج کے اہلکار روسی تربیتی اداروں میں لیں گے۔ اسی طرح روسی فوجی ماہرین ٹریننگ دینے کے لئے پاکستان بھی آ سکتے ہیں۔ جیسا کہ فرانسیسی آبدوزوں کی ٹریننگ کے لئے ان کے انجینئر کراچی آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان روسی ساختہ ایئر ڈیفنس سسٹم کی خریداری میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سسٹم کی فروخت کے لئے روس نے ترکی سے ڈیل کر لی ہے۔ ایران بھی اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جبکہ شام میں یہ ایئر ڈیفنس سسٹم روس نے خود لگا رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی کہ ایف 16 اور ایف 15 طیاروں سے لے کر اس نے جو بھی فوجی آلات پاکستان کو فروخت کئے، اس کی بیک اپ سپورٹ کے لئے اسپیئر پارٹس اور ٹیکنالوجی ساتھ فراہم نہیں کی۔ جبکہ ضرورت پڑنے پر یہ ٹیکنالوجی اور اسپیئر پارٹس بہت مہنگے داموں اور ضرورت سے کم مقدار میں پاکستان کو فراہم کرتا رہا۔ اور یہ کہ بیشتر نازک مواقع پر یہ اسپیئر پارٹس اور ٹیکنالوجی روک کے پاکستان کو نقصان بھی پہنچایا۔ امریکہ نے اپنے فروخت کردہ جنگی ہتھیاروں اور آلات کی ٹیکنالوجی اور اسپیئر پارٹس 65ء کی جنگ میں بھی روک دیئے تھے۔ اگرچہ اس نے پاکستان اور بھارت دونوں پر پابندی لگائی تھی، لیکن اس کا سارا نقصان پاکستان کو ہوا اور بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑا کہ وہ سارے ہتھیار اور ٹیکنالوجی روس سے لے رہا تھا۔ یہی کہانی امریکہ نے 1971ء کی جنگ میں بھی دوہرائی۔ 98ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر یہی رویہ اپنایا گیا۔ جبکہ 1999ء میں پریسلر ترمیم لگا کر ہتھیاروں کے پرزے اور ٹیکنالوجی کی فراہمی روکی۔ ذرائع کے مطابق امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری کا انحصار ختم کر کے روس سے معاملات طے کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ماسکو ہتھیاروں کے پرزے اور ٹیکنالوجی ساتھ دے گا۔ جیسا کہ بھارت کے لئے اس نے یہی پالیسی رکھی ہوئی ہے۔ چین بھی پاکستان کو جو ہتھیار اور ملٹری ہارڈویئر فروخت کرتا ہے، اس کی ٹیکنالوجی ساتھ دیتا ہے۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان ایک عرصے سے امریکہ سے کوبرا اور بلیک ہاکس ہیلی کاپٹر مانگ رہا ہے، لیکن واشنگٹن اس پر آمادہ نہیں ہو رہا۔ اب یہ کمی روس سے ہیلی کاپٹر خرید کر پوری کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق روس نے صرف دفاعی شعبے میں ہی تعاون کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا، بلکہ وہ سفارتی سطح پر بھی اس وقت پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہارٹ ایشیا کانفرنس میں جب افغانستان اور بھارت ایک ہو گئے تھے تو پاکستان کا ساتھ روسی نمائندے نے دیا تھا۔ ذرائع کے بقول اگرچہ کشمیر کے معاملے پر روس ہمیشہ بھارت کے موقف کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے، یہ روس ہی ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق قراردادیں ناکام ہوتی رہی ہیں، کیونکہ 1953ء سے روس اس نوعیت کی قراردادوں کو ویٹو کرتا چلا آیا ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول اب کشمیر پر روس کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور اندرون خانہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق کسی قرارداد کو روس ویٹو نہیں کرے گا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پیوٹن بھارت سے خوش نہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفاعی معاہدوں کے حوالے سے بھارت کا سارا رحجان امریکہ کی طرف ہو گیا۔ اور دوسری وجہ یہ کہ بھارت اور روس نے ففتھ جنریشن کے طیارے مشترکہ طور پر بنانے کا معاہدہ کیا تھا، تاہم عین وقت پر بھارت اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گیا۔
ذرائع کے مطابق سائوتھ ایشیا میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے بڑا قدرتی قسم کا اتحاد بن رہا ہے۔ پاکستان بھی اب شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا حصہ ہے۔ اس آرگنائزیشن کو روس چلا رہا ہے۔ امریکی رویے پر چین نے اپنی پالیسی تبدیل کر کے فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ قبل ازیں چین نے 2025ء تک دفاعی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور طے کیا تھا کہ کسی جنگ میں الجھنے کے بجائے ساری توجہ معیشت پر رکھی جائے گی۔ امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ ایک پاکستانی عہدیدار کے مطابق چونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے معیشت کے معاملے پر چین کے ساتھ براہ راست ٹکر لینا شروع کر دی ہے۔ چینی ایکسپورٹ پر مختلف پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جبکہ چینی برآمدات پر بھاری ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں۔ دوسری جانب مصنوعی جزیروں کے معاملے پر امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان کے ذریعے چین کو گھیر رہا ہے۔ اور ان کے ذریعے چین پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ ان امریکی اقدامات نے چین کو برہم کر دیا ہے اور اس نے اپنی دفاعی پالیسی تبدیل کر کے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند روز پہلے چینی صدر کی جانب سے اپنی افواج کو ہر قسم کے کاروبار ختم کر کے ساری توجہ ملٹری ٹریننگ پر رکھنے کے احکامات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ عہدیدار کے بقول اس سے قبل نہ صرف خود چین نے 2025ء تک کسی سے جنگ نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی، بلکہ وہ پاکستان کو بھی وقتاً فوقتاً یہ مشورہ دیتا رہا کہ امریکہ پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے، تاکہ سی پیک پروجیکٹ آگے بڑھانے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔ لیکن اب یہ ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب پیوٹن کا موقف پہلے ہی امریکہ کے خلاف بہت جارحانہ ہے۔ اس کا بنیادی سبب یوکرین کے ایشو میں امریکہ کی مداخلت ہے، جس نے پیوٹن کو ناراض کر رکھا ہے۔
ان سارے معاملات پر معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو اپنے محور سے تقریباً نکال باہر کیا ہے۔ اس صورت حال میں روس کے ساتھ مشترکہ ٹریننگ کے معاہدے سمیت دیگر معاملات انتہائی خوش آئند ہیں۔ پاکستان پہلی دفعہ اپنا قبلہ درست کرنے جا رہا ہے، لیکن پیش رفت سست ہے۔ پاکستان کو آج سے چھ ماہ پہلے ہی اس سلسلے میں کافی آگے بڑھ جانا چاہئے تھا۔ روس سے انڈر اسٹینڈنگ میں پانچ سے دس برس لگیں گے۔ یہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت اسلام آباد کو تو ماسکو کی ضرورت ہے، لیکن روس کے اپنے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ سی پیک ایک ایسا مقناطیس ہے جو روس کو پاکستان کی طرف کھینچ رہا ہے۔ سی پیک کے ذریعے روس کا ٹریڈ روٹ بھی بنتا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس صورت حال کو کیش کرائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment