عباس ثاقب
مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ وہ اخترخان کی نقل و حرکت کی نگرانی پر مامور ہے اور اخباری کھوکھا بھی غالباً سفارتخانے کی مسلسل جاسوسی کے اڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مجھے ہندستانی خفیہ محکمے کی طرف سے سفارتخانے اور اس میں تعینات عملے کی مسلسل جاسوسی کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی بتایا جا چکا تھا اور میری طرف سے اختیار کی گئی تمام احتیاطی تدابیر اسی انتباہ کا نتیجہ تھیں۔ لیکن اب مجھے اپنی حماقت پر ہنسی آ رہی تھی کہ میں دشمن جاسوسوں کے مرکزی اڈے کو ہی اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کرگزرا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ میں نے دوبارہ اس کھوکھے کا رخ نہیں کیا، ورنہ یقینی طور پر شک کا نشانہ بن جاتا اور جانے اس اناڑی پن کا کتنا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑ جاتا۔
تاہم اللہ رب العزت مسلسل میری مدد کر رہا تھا اور میں اپنی پہلے ہی دن کی کارکردگی سے خاصا مطمئن تھا۔ میں نہ صرف اختر خان کی سفارتخانے آنے جانے کے معمول سے واقف ہوگیا تھا، بلکہ میں نے ان کی نقل و حرکت کی نگرانی پر مامور شخص کو بھی اچھی طرح پہچاننے کے ساتھ ساتھ سفارتخانے کی جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے ٹھکانے کا بھی پتا لگالیا تھا۔
اب مجھے اگلا مرحلہ درپیش تھا جو کہیں زیادہ نازک اور دشوارتھا۔ کیونکہ میری کوئی بھی غلطی اختر خان سمیت تمام سفارتخانے کو سنگین مسائل میں مبتلا کر سکتی تھی۔ اتنی سخت نگرانی سے بچ کر اپنی تحویل میں موجود نقشے اختر خان تک پہنچانا مجھے جوئے شیر لانے کے مترادف لگ رہا تھا۔ آلوک اور سوامی تو میری نظروں میں آگئے تھے، خدا جانے اور کتنی پوشیدہ نظریں اس کی نقل و حرکت کا قدم قدم پر جائزہ لے رہی ہوں گی۔ لیکن ان تمام اندیشوں اور خطرات کے باوجود مجھے اپنی سی کوشش توکرنی ہی تھی۔
اب مجھے ایسے ٹھکانے کی ضرورت تھی، جہاں اس درپیش آزمائش میں کامیابی کے لیے سکون سے منصوبہ بندی کرسکوں۔ یوں تو دلّی میں مسافر خانوں کی کوئی کمی نہیں تھی، لیکن ظہیر کے چچا جمیل شیخ کے مسافر خانے میں خود پر پڑنے والی مصیبت کے بعد مجھے دلّی کے کسی مسافر خانے کا رخ کرنے کا خیال پریشان کن لگ رہا تھا۔ چنانچہ میں نے ایک بار پھر سلطان المشائخ، محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے دربار کا رخ کیا، جہاں پہنچتے ہی لنگر سے خواجہ کے پردیسی مہمان کی خاطر تواضع کی گئی۔ میں نے پیٹ بھرنے کے بعد اپنے میزبان کی آرام گاہ پر جاکر بندہ نوازی پر اظہارِ تشکر کیا اور خود کو درپیش کڑی آزمائش پر خالق حقیقی سے دعا کی التجا کی۔ سردی کی وجہ سے دربار پر حاضر تمام زائرین عمارت کے اندرونی گوشوں میں سمٹے ہوئے تھے۔ تاہم مجھے اپنی شب بسری کے لیے ٹھکانا ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔
اس رات میں اپنے کمبل میں لپٹا دیر تک سفارتخانے اور اختر خان کے معمولات اور ان کی نگرانی کے انتظامات ذہن میں رکھتے ہوئے باریک بینی سے اپنی آئندہ کی حکمتِ عملی مرتب کرتا رہا۔ بالآخر میں نے اپنی سمجھ کے مطابق تمام صورتِ حال ذہن میں رکھتے ہوئے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور اس کی جزویات پر بھی غور و خوض کرلیا۔ میں نے اندازے غلط ہونے اور صورت حال کے بگڑنے کے امکانات ذہن میں رکھتے ہوئے متبادل اقدامات بھی تجویز کرلیے تھے۔ خود کو نیند کے حوالے کرتے ہوئے میں خاصا مطمئن اور اپنی کامیابی کے حوالے سے پُراعتماد تھا۔
اگلے روز میں دوپہر کے بعد اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ میں نے سب سے پہلے موٹر سائیکل اور اسکوٹر کی مرمت کرنے والی چند ورک شاپس کا رخ کیا اور کوئی پرانی اور خستہ حال لیکن چلنے کے قابل موٹر سائیکل یا اسکوٹر خریدنے کی کوشش کی۔ لیکن انتہائی گئی گزری حالت والی گاڑی کی قیمت بھی اپنی بساط سے باہر پائی۔
مجبوراً مجھے ایک سرکاری محکمے کی پارکنگ سے ایک موٹر سائیکل چرانی پڑی۔ وہاں چوکی دار نام کی کوئی چیز تعینات نہیں تھی اور شاید پرانا ماڈل ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کے مالک نے اسے مقفل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ کچھ دور گھسیٹ کر لے جانے کے بعد میں نے اگنیشن کے تار کاٹ کر آپس میں جوڑے تو پہلی ہی کک لگانے پر انجن اسٹارٹ ہوگیا۔ لگ بھگ ایک میل آگے جاکر میں نے ایک الگ تھلگ گوشے میں موٹر سائیکل روکی اور اس کی نمبر پلیٹ اکھاڑ کر جھاڑیوں میں پھینک دی۔ علاوہ ازیں راستے میں ایک بازار سے اسٹیشنری کی ایک دکان سے میں نے اپنے کام کی کچھ اشیا خریدیں اور چند منٹ ایک الگ تھلگ گوشے میں گزارنے کے بعد اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ میں منہ پر اونی گلوبند لپیٹے پہلی بار سفارتخانے کے سامنے سے گزرا تو چھٹی ہونے میں کچھ دیر باقی تھی۔ سوامی اپنے کھوکھے پر موجود تھا، البتہ الوک ابھی وہاں نہیں پہنچا تھا۔ میں سیدھا نکلتا چلا گیا اور تقریباً دس منٹ ایک سیرگاہ میں گزارکر واپس لوٹا تو دور ہی سے الوک کی پھٹ پھٹی سوامی کے کھوکھے کے عقب میں کھڑی نظر آئی۔ میں نے فوراً اپنی موٹر سائیکل روک دی اور اسے ایک دیوار کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑی کرکے تیزی سے سوامی کے کھوکھے کی طرف بڑھا۔ اس دوران میری نظریں تیزی سے اردگرد کا جائزہ لے رہی تھیں کہ کوئی میری طرف متوجہ تو نہیں ہے۔ لیکن مجھے کسی پر شک نہیں گزرا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭