کاندھلہ میں ایک مرتبہ کسی زمین کے ٹکڑے پر مسلمانوں اور ہندوؤں میں تصادم ہوگیا۔ دونوں فریق اسے اپنی ملکیت بتاتے تھے اور کوئی اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔ حالات جب زیادہ کشیدہ ہوگئے اور قتل و قتال کا خطرہ پیدا ہوگیا تو مصلحت کی خاطر ضلعی صدر مقام سہارنپور سے ایک انگریز اعلیٰ افسر آیا۔ اس نے حضرت مولانا مظفر کاندھلویؒ کو بلا بھیجا اور کہا ’’وہ جس قوم کے حق میں فیصلہ دیں گے، میں مان لوں گا۔‘‘
حیرت کی بات یہ تھی کہ ہندوئوں نے بھی آپؒ کے نام پر اتفاق کر لیا اور کوئی چوں چرا نہ کی۔ مسلمانوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ مولانا ہمارے حق میں ہی فیصلہ دیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے خلاف فیصلہ دے کر برسر عام مسلمانوں کی ناک کٹوا دیں۔
یہ اس وقت کی بات ہے کہ 1857ء کے المیے کو گزرے زیادہ مدت نہیں گزری تھی اور مسلمانوں کی دلوں میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی، چنانچہ مولانا نے انگریز افسر سے ملنے سے انکار کر دیا۔ جب بار بار اصرار کر کے عرض کیا گیا کہ حضرت آپ کی گواہی کی وجہ سے ایک بڑے تصادم کا خطرہ ٹل سکتا ہے، تو آپؒ اس شرط پر عدالت میں آنے کے لیے تیار ہوئے کہ وہ اس افسر کا چہرہ نہیں دیکھیں گے۔ ان صاحب نے شرط مان لی۔ آپ تشریف لائے، انگریز کی طرف پشت کر کے کھڑے ہوگئے اور ہزاروں ہندوئوں اور مسلمانوں کی موجودگی میں اعلان کیا ’’زمین کا متنازع ٹکڑا دراصل ہندوئوں کا ہے اور اس پر مسلمانوں کا دعویٰ بے جا ہے۔‘‘ چنانچہ آپ کی گواہی کی بنیاد پر یہ پلاٹ ہندوئوں حوالے کر دیا گیا۔
مشہور ادیب جناب احسان دانش مرحومؒ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے دلوں کو جنجھوڑ دینے والا ایک جملہ کہہ گئے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اس دن مسلمان ہار گئے، لیکن اسلام جیت گیا۔‘‘ اور اسلام یوں جیتا کہ مولانا کی سچائی، عدل پسندی اور حق گوئی دیکھ کر اس دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے ہندوئوں کے چوبیس خاندانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭