بڑا سخی کون ہے؟

معن بن زائد کا بیان ہے کہ ایک زمانے میں خلیفہ منصور مجھ سے بڑا ناراض تھا، لہٰذا میں اس کا سامنا کرنے سے کتراتا تھا۔ منصور نے میری گرفتاری کیلئے انعام بھی مقرر کر دیا، میں گھبرا کر اپنا بھیس بدل کر ایک اونٹ پر سوار ہوا اور بارینہ کی طرف چلا تاکہ وہاں روپوش ہو جائوں، چلتے چلتے میں جب بغداد کے محلے باب حرب میں پہنچا، وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص تلوار حمائل کئے ہوئے میرا تعاقب کر رہا ہے، میں نے تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کی، مگر وہ شخص میرے سامنے آ گیا، اس نے جھٹ میرے اونٹ کی نکیل پکڑ کر اسے زمین پر بٹھا دیا اور میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔
میں نے اجنبی بنتے ہوئے کہا کیا بات ہے؟ وہ بولا تمہیں نہیں معلوم امیر المؤمنین کو تمہاری تلاش ہے۔ میں نے کہا برادر تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے، میری حیثیت ہی کیا بھلا امیر المؤمنین مجھے کیوں تلاش کرائیں گے۔ وہ کہنے لگا کیا معن بن زائدہ نہیں ہو؟ میں نے کہا ہر گز نہیں، کہاں میں اور کہاں معن بن زائدہ۔ وہ ہنسا تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتے، میں تمہیں خوب اچھی طرح پہنچانتا ہوں، جتنا تم اپنے آپ کو پہنچاتے ہو، اس کی باتوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ شخص پیچھا نہیں چھوڑنے والا ہے۔
میں نے اس سے کہا کہ دیکھو یہ جواہر کی ایک قیمتی مالا ہے، اس کی قیمت امیر المؤمنین کے انعام سے بہت زیادہ ہے، اسے تم لے لو اور مفت میں میرا خون اپنے سر نہ لو، میں نے مالا اس کو تھما دی، وہ کچھ دیر تک مالا کا جائزہ لیتا رہا، پھر کہنے لگا اس کی قیمت کے متعلق تمہاری بات قطعاً (صحیح ہے لیکن) تمہیں میری ایک بات کا جواب دینا پڑے گا، اس نے سوال کیا کہ بہت لوگ تمہاری سخاوت اور فیاضی کی تعریف کرتے ہیں، مجھے بتائو کیا تم نے یہ ہار دے کر مجھے اپنی ساری دولت بخش دی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ اس نے پوچھا اچھا تو کیا ایک تہائی بھی نہیں؟ جواب دیا ایک تہائی بھی نہیں۔ اس نے پوچھا اچھا تو کیا دسواں حصہ؟ میں نے جواب دیا ہاں، دسواں حصہ سمجھ لو۔ کہنے لگا یہ تو بڑی بات نہیں ہے۔ خلیفہ منصور ہر مہینے مجھے صرف بیس درہم تنخواہ دیتا ہے اور اس ہار کی قیمت لاکھوں درہم ہے لیکن تم اپنے مقابلے میں میری سخاوت دیکھو، یہ ہار میں تمہیں بخشتا ہوں تاکہ دنیا سمجھ لے کہ ہم دونوں میں سے زیادہ سخی کون ہے۔
اس نے مالا میری طرف اچھال کر اونٹ کی نکیل چھوڑ دی اور جانے لگا میں نے (اس کی بات) سے جل کر کہا اس توہین و ذلت کے مقابلے میں قتل ہی ہو جانا بہتر ہے، تم نے جو کچھ دیا ہے وہ لے لو اور مجھے گرفتار کر کے خلیفہ کے سامنے پیش کر دو۔ وہ ہنسا اور کہا کہ تم مجھ سے زیادہ فیاض بن کر مجھے جھٹلانا چاہتے ہو، لہٰذا میں یہ ہار ہرگز نہیں لوں گا اور یہ کہہ کر وہ فوراً چلا گیا۔
حاصل … معلوم ہوا کہ سخاوت صرف مالداروں کے ساتھ ہی لازم و ملزوم نہیں ہے، ایک غریب آدمی بھی سخاوت کر سکتا ہے، اگرچہ ہر ایک اپنی اپنی حیثیت کے مطابق سخاوت کرتا ہے، دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہمیں اس واقعہ سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العٰلمین۔
(سبق آموز واقعات)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment