کسی پر قربانی واجب تھی، لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کر دے اور اگر بکری خرید لی تھی، تو وہی بکری بعینہ خیرات کر دے۔
قربانی کا جانور خرید لیا اور کسی وجہ سے قربانی نہ کر سکا تو زندہ جانور صدقہ کر دیا جائے اور مسئلہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اگر (بقر عید کے بعد) ذبح کر ڈالا تو غربا پر اس کا گوشت تقسیم کر دیا جائے، مالداروں کو نہ دیا جائے۔ اگر جانور ضائع ہو گیا، قربانی نہ کر سکا اور خریدنے والا اگر امیر (صاحب نصاب) ہے تو اس کے ذمے اس کی قیمت کا صدقہ کر دینا واجب ہے۔
اگر قربانی کے لیے جانور خرید لیا تھا (اور ایام قربانی گزر گئے) تو اس کو زندہ ہی صدقہ کر دیا جائے، اگر نہیں خریدا تھا تو قیمت صدقہ کر دی جائے۔
قربانی کے لیے اونٹ پانچ سال کا اور گائے، بیل، بھینس، بھینسا پورے دو سال کا ہونا ضروری ہے۔ بکرا، بکری ایک سال کا ہونا ضروری ہے، اگر اس کی عمر میں کچھ بھی کمی ہو گئی تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے، لیکن اگر بھیڑ اور دنبہ چھ مہینے سے زیادہ اور ایک سال سے کم ہو، مگر اتنا موٹا، تازہ اور فربہ ہوکہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو اور سال بھر والے بھیڑ، دنبوں میں اگر چھوڑ دیا جائے تو سال بھر سے کم کا نہ معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے اور اگر چھ مہینے سے بھی کم ہو تو اس کی قربانی قطعاً جائز نہیں، خواہ وہ کتنا ہی موٹا تازہ ہو اور یہ حکم ایک سال سے کم عمر کا صرف بھیڑ اور دُنبے کے بارے میں ہے، بکریوں کے بارے میں نہیں۔
جب کسی جانور کی عمر پوری ہونے کا یقین غالب ہو جائے تو اس کی قربانی کرنا درست ہے، ورنہ نہیں اور اگر کوئی جانور دیکھنے میں پوری عمر کا معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ اس کی عمر ابھی پوری نہیں ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ کوئی جانور دیکھنے میں کم عمر کا معلوم ہوتا ہو، مگر یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی عمر پوری ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔
گائے، بیل، بھینس، اونٹ، اونٹنی میں اگر سات افرد شریک ہو کر قربانی کریں جب بھی درست ہے (یعنی مذکورہ اقسام میں سات حصے ہو سکتے ہیں) لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو اور سب کی نیت قربانی کرنے کی یا عقیقہ کرنے کی ہو، صرف گوشت کھانے کی نیت نہ ہو اور اگر کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا یا صرف گوشت کھانے کی نیت ہو تو قربانی درست نہ ہو گی۔
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے، نیز قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا یا اس کے بال کاٹنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے ایسا کر لیا تو دودھ اور بال یا ان کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
قربانی کے جانور اونٹ، گائے، دنبہ، بھیڑ، بکرا (مذکر ومؤنٹ دونوں جائز ہیں) بھینس گائے کے حکم میں ہے، گھوڑے اور مرغ کی قربانی نہیں ہو سکتی اور آنحضرتؐ سے قولاً یا فعلاً گھوڑے کی قربانی کا ثبوت نہیں ہے۔ ہرن اور نیل گائے کی قربانی بھی درست نہیں۔ قربانی کے جانوروں کی تعیین شرعی سماعی ہے، قیاس کو اس میں دخل نہیں ہے اور شریعت مقدسہ سے صرف تین نوع کے جانور ثابت ہوئے ہیں۔ قسم اول: اونٹ نرو مادہ۔ قسم دوم: بکرا بکری، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ نرومادہ۔ قسم سوم: گائے، بھینس نرو مادہ۔ پس ان کے علاوہ اور کسی جانور کی قربانی جائز نہیں اور اس کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ وحشی نہ ہوں، بلکہ اہلی (پالتو) اور آدمیوں سے مانوس ہوں۔
اگر کسی جانور کی کھال جل جانے کی وجہ سے اس پر بال نہ جمتے ہو اور زخم وغیرہ نہ ہو اور تمام اعضاء صحیح وسالم ہوں تو ایسے مویشی کی قربانی جائز ہے۔ جس جانور کے بال کاٹ لیے گئے ہوں، اس کی قربانی درست ہے۔
اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے گرایا اور گرانے کی وجہ سے کوئی عیب پیدا ہوگیا تو اس عیب والے جانور کی قربانی درست ہے اور قربانی کرتے وقت جو بھی نقص جانور میں آجائے اس کا اعتبار نہیں، قربانی درست ہے۔
بانجھ اور سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی درست ہے، بشرطیکہ سینگ اس کا جڑ سے نہ ٹوٹا ہو اور مذبح تک اپنے پیروں سے چلا جائے۔ جس جانور کی ران وغیرہ پر لوہے سے داغ دیا ہو اور زمین جوتنے اور مارنے سے جو جانور کے بدن پر زخم یا نشان ہو جاتا ہے، ان دونوں کی قربانی درست ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ قربانی میں کوئی عیب ظاہری نہ ہو۔ جس جانور کی ناک کٹی ہو، اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو، جس کی وجہ سے وہ چارہ (گھاس وغیرہ) نہ کھا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اگر بھیڑ، بکری اور دنبے کے ایک تھن سے دودھ نہ اترتا ہو تو اس کی بھی قربانی درست نہیں ہے۔ اگر بھینس، گائے، اونٹنی وغیرہ کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو تو اس کی بھی قربانی درست نہیں ہے۔
جب چار بھائیوں کا مال مشترک ہے تو وہ چاروں برابر کے حصہ دار ہیں اور قربانی اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس حاجات ضروریہ سے زائد بقدر نصاب مال موجود ہو۔ پس اگر ان چاروں کا مال مشترک اس قدر قیمت رکھتا ہو کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب ہوجائے تو ان میں سے بالغوں پر قربانی فرض ہوگی، نابالغ پر نہیں اور جن پر فرض ہو گی ان میں سے ہر ایک پر ایک بکرا یا گائے، بیل، بھینس اور اونٹ یا اونٹنی کا ساتواں حصہ کرنا ضروری ہو گا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭