حضرت خالد بن ولیدؓ عہد صدیقی میں جب مدعیان نبوت اور مرتدین کیخلاف مہم سے فارغ ہو چکے تو خلیفہ رسولؐ کے حکم سے مثنیٰ بن حارثہؒ کی مدد کے لیے عراق کی طرف کوچ کیا، منزل پر منزل مارتے اور راستے سے حکام کو مطلع کرتے سیدھے ابلہ جا پہنچے۔ اس مقام کو اپنا مرکز بنا کر انہوں نے عراق کے ایرانی حاکم ہرمز کو خط لکھا کہ اسلام قبول کر لو یا جزیہ ادا کرو، ورنہ تمہیں ایک ایسی قوم سے لڑنا پڑے گا جو موت کی اتنی ہی آرزو مند ہے جتنی تمہیں زندگی کی تمنا ہے۔
ہرمز نے یہ خط شاہ ایران کو بھجوایا اور خود سیدنا خالدؓ کے مقابلے کے لیے نکلا۔ کاظمہ کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ ایرانیوں نے اس میدان میں اپنے پیروں کو زنجیروں سے جکڑ لیا تھا تاکہ قدم اکھڑنے نہ پائیں اور بھاگنے کا خیال تک نہ آسکے، لیکن خدا کی تلوار (سیدنا خالدؓ) کی کاٹ نے اس تدبیر کو بھی خاک میں ملا دیا اور آہنی زنجیر کے ٹکڑے اڑا دیئے۔ میدان اہل اسلام کے ہاتھ رہا، ایرانیوں نے شکست فاش کھائی اور ہرمز مارا گیا۔ (سچی اسلامی کہانیاں)
سنت کی پیروی کا غم!
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ بھوک کے مارے اس کی بری حالت ہو رہی ہے۔ چناں چہ اپنے دوست کی یہ حالت دیکھ کر مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے دو درہم دینے کا ارادہ کیا اور کہا یہ لے لو اور ان سے اپنے کھانے پینے کے لیے کچھ خرید لو جس سے تمہیں عبادت کی طاقت حاصل ہوجائے گی اور تم اچھی طرح سے عبادت کر سکو گے۔
اس نے میری بات سنی تو غور سے مجھے دیکھنے لگا پھر کہنے لگا کہ میں یہ درہم نہیں لے سکتا، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ میں ان سے کوئی چیز خریدے بغیر مرجاؤں، حالاں کہ رسول اکرمؐ کی وفات ہوئی تھی تو اس وقت آپؐ کے گھر سے نہ کوئی دینار ملا تھا نہ ہی درہم اور خدا تعالیٰ مجھے عبادت کرنے کی طاقت عطا فرمائیں گے، جس سے میں خوب اچھے طریقے سے عبادت کرلوں گا۔
( اولیاء کے اخلاق: مولف نصیر حسین، ص 29 ناشر ادارہ غفوریہ کراچی)
٭٭٭٭٭