لاہور میں 6 برس پرانے کیس کی پیروی پانچ جانیں لے گئی

نجم الحسن عارف
لاہور میں 6 برس پرانے قتل کے کیس کی پیروی نے ایک ہی خاندان کے 5 چراغ بجھا دیئے۔دیرینہ دشمنی پر پھلروان نامی سرحدی گائوں کے رہائشی غلام علی کے دو بیٹوں، دو پوتوں اور ایک بھتیجے کی جان لی گئی۔ مقتولین میں 16 سالہ تنویر بھی شامل ہے، جس نے چند ہفتے پہلے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ 2012ء میں متاثرہ خاندان کا فیاض نامی نوجوان اسی قاتل فیملی نے قتل کر دیا تھا۔ جس کا اہم ترین ملزم فرمان ولد صدیق پانچ سال تک اشتہاری رہنے کے بعد پچھلے سال گرفتار ہوا۔ فرمان نے فیاض نامی نوجوان کو قاتل پارٹی کے خلاف ایک کیس کی پیروی کے باعث قتل کیا تھا۔ مقتول خاندان کے سربراہ غلام علی کے بیٹے عبدالحمید نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’قاتل فیملی اب ہمارے خاندان کو فیاض کے قتل کیس کی پیروی سے روکنا چاہتی تھی لیکن ہماری طرف سے عدالت سے کیس واپس نہ لئے جانے پر انہوں نے میرے دو سگے بھائیوں قربان علی، عبدالرشید، دو بھتیجوں تنویر اور عبدالقادر اور ایک کزن کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے‘‘۔ عبدالحمید کے بقول ان کے دو بھائی، دو بھتیجے اور ایک کزن اپنی ٹریکٹر ٹرالی پر سوار ہو کر ساتھ والے گائوں حبیب آباد میں اپنی زرعی اراضی پر صبح سویرے جانوروں کیلئے چارہ لینے گئے تھے، ابھی وہ اپنی زمین میں داخل ہوئے تھے کہ ہماری ہی جوار کی فصل میں چھپے دشمنوں نے اچانک فائرنگ شروع کر دی۔ عبدالحمید کے مطابق ابھی ہمارے لوگ ٹرالی سے اترنے بھی نہ پائے تھے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا اور ان سب کی جان لینے کے بعد ملزمان اسلحہ لہراتے ہوئے فرار ہو گئے۔ ہم اپنے گھروں میں تھے۔ فائرنگ کی آواز سن کر ہم پریشان ہوگئے۔ ہم انہیں دیکھنے کھیتوں کی طرف نکلے، جہاں آگے ان کی لاشیں پڑی تھیں۔
واضح رہے کہ پھلروان نامی گائوں برکی تھانہ میں واقع ہے۔ تاہم سرحدی علاقہ میں ہونے کی وجہ سے اس میں منشیات کے دھندے میں ملوث لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس گائوں کے بارے میں مقامی پولیس افسر نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جرائم کافی ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر جرائم جو سامنے آتے ہیں وہ منشیات، قتل اور لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوتے ہیں۔ اس ذمہ دار نے کہا کہ دشمنی یہاں عام سی بات ہے۔ تاہم ہمیں قتل کی منصوبہ بندی کی معلومات نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ منشیات کے کاروبار نے لوگوں کے مفادات کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔ اس لئے کوئی مخبری کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پولیس تین دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ واضح رہے ملزموں کے سرغنہ افتخار سمیت کل 9 ملزمان کو اس لرزہ خیز واردات سے متعلق ایف آئی آر نمبر 268/18 میں نامزد کیا گیا ہے۔ ان نو ملزمان میں افتخار ولد محمد صدیق کے علاوہ اس کے پانچ بیٹے، جبار ولد افتخار، پیر ولد افتخار، ذوالفقار ولد افتخار، جہانگیر ولد افتخار اور قدیر ولد افتخار بھی شامل ہیں۔ جبکہ دیگر ملزمان میں لیاقت علی ولد ذوالفقار اور رحمت علی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق افتخار کی ایک سے زائد شادیاں ہیں اور اس کے دس بیٹے ہیں۔ گائوں میں اثر و رسوخ، روپے پیسے اور کثرت اولاد کی وجہ سے اس خاندان کی کافی دہشت ہے۔ تاہم اس خاندان کی طرح ان کے مخالفین اور مقتول پارٹی بھی علاقے میں طاقتور تصور کی جاتی ہے، جس کے باعث دس برس سے ان میں چپقلش چلی آرہی ہے۔
دو مقتولین کے بھائی اور مقتولین کے چچا عبدالحمید ’’امت‘‘ کو بتایا اسی قاتل پارٹی نے 2010ء میں ہمارے ایک عزیز شبیر احمد کو فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو چکا ہے اور وہ تب سے وہیل چیئر پر ہے۔ اب ہمارے جواں سال بھتیجے تنویر کو بھی قتل کر دیا ہے۔ تنویر نے چند دن پہلے ہی میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا اور اب وہ کالج میں داخلے کیلئے کوشاں تھا۔ ان کے بقول پولیس نے ہمیں بتایا ہے کہ اس نے گائوں سے جڑے ہوئے دیہات اور لاہور سمیت مختلف جگہوں پر چھاپے مارے ہیں۔ ابھی تک کوئی ملزم ہاتھ نہیں آیا۔ دوسری جانب پولیس کے مقامی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ ہم نے ملزمان کے سرغنہ کی والدہ سمیت تین خواتین کو حراست میں لیا ہے، اس کے علاوہ مبینہ قاتل پارٹی کے دو نوکروں کو بھی رکھا گیا ہے۔ لیکن ابھی تک ملزمان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔ بلکہ ان کی خواتین پولیس کو بھی سخت انداز سے دھمکا رہی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ملزمان کی والدہ کے انداز سے لگتا ہے کہ وہ انتہائی سخت گیر اور جھگڑالو ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق گرفتار کئے گئے نوکروں سے بھی کوئی معلومات نہیں ملی ہیں۔ تاہم ہمارا اندازہ ہے کہ ملزمان علاقے سے زیادہ دور نکل گئے ہیں اور پنجاب کے دوسرے اضلاع میں روپوش ہو ہیں۔
ذرائع کے مطابق پولیس کو یہ بھی خدشہ تھا کہ جس طرح فیاض نامی شخص کے قتل کا مرکزی ملزم فرمان ولد صدیق پانچ سال تک اشتہاری رہا اور اس دوران مبینہ طور پر ملک سے باہر بھی چلا گیا تھا، اسی طرح نو ملزمان بھی ملک سے باہر فرار ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں، پولیس نے اس خدشے کی بنا پر ملزمان کے نام ایف آئی اے کو ارسال کر کے درخواست کی ہے کہ ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیئے جائیں۔ پولیس نے اس سلسلے میں بدھ کے روز ہی ایف آئی اے حکام کو ایک باضابطہ خط لکھ دیا تھا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے لاہور کے علاوہ جگہوں پر بھی قاتل پارٹی کے رشتہ داروں کے ہاں چھاپے مارے ہیں، لیکن اصل انحصار ان کے زیر استعمال موبائل فونز کی جیو فیسنگ پر ہے۔ پولیس نے ملزمان کے زیر استعمال فون نمبرز کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں۔ لیکن پولیس ذرائع کے مطابق لرزہ خیز واقعہ کے بعد سے یہ فون مسلسل بند ہیں۔ پولیس نے ان فون نمبرز سے دوسرے فون نمبرز کے ساتھ رابطہ کرنے والے نمبرز کو بھی نگرانی میں رکھا ہوا ہے۔ اس لئے جیسے ہی ان فونز کی لوکیشن اور رابطوں کے بارے میں ٹپ ملی تو گرفتاریاں ممکن ہو سکتی ہیں۔ گائوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق پولیس نے جائے وقوعہ کو فوری طور پر ’’کارڈن آف‘‘ کر دیا تھا۔ بعد ازاں لاشیں پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوائی گئیں۔ لیکن ابھی تک مقتول پارٹی کو پوسٹ مارٹم رپورٹس فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ پولیس نے کسی اور حادثے کو روکنے کیلئے گائوں میں اب مسلسل اپنی نفری تعینات کر رکھی ہے، اور بدھ کے روز جنازے کے موقع پر فائرنگ کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک متضاد اطلاعات ہیں کیونکہ متاثرین کا الزام ہے کہ جنازے پر فائرنگ بھی قاتل پارٹی نے کی، تاکہ اس کی گائوں میں دہشت پھیلے اور کوئی گواہی دینے کی کوشش نہ کر سکے، جبکہ پولیس کے ذمہ داران اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کر رہے ہیں کہ جنازے کے موقع پر فائرنگ خود مقتول پارٹی کے افراد نے ہی کرائی۔
خیال رہے منگل کے روز صبح سویرے خونی واردات کے بعد قاتل پارٹی کے لوگوں کی اکثریت گھر کو تالے لگا کر بھاگ گئی تھی، تاہم مقتول پارٹی کے مشتعل افراد نے ان کی تقریباً ایک ایکڑ پر پھیلی حویلی کی دیواروں اور منڈیروں کو گرا دیا گیا۔ تاہم آگ لگانے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ ذرائع کے مطابق پھلروان گائوں کے ایک ہی بازار میں دونوں متحارب خاندان کی رہائش ہے۔ ایک خاندان کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر دوسرے کے گھر یا حویلی کے دروازے کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
مقتول پارٹی کے عبدالحمید نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مبینہ قاتل پارٹی کم از کم 30 سال سے منشیات کے کاروبار میں ملوث ہے لیکن اس جانب متعلقہ اداروں اور پولیس نے کم ہی توجہ دی ہے۔ ذرائع کے مطابق پھلروان سے متصل دیگر سرحدی دیہات میں بھی لڑائی جھگڑوں کے حوالے سے تقریباً ایک جیسا ماحول ہے۔ منشیات یا دوسرے غلط دھندے کرنے والے لوگ خود کو کافی محفوظ سمجھتے ہیں، جبکہ پولیس، انتظامیہ اور حکومت ایسے لوگوں کو جانتے بوجھتے نظر انداز کئے رکھتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment