سپریم کورٹ جنرل(ر) اسددرانی کے خلاف سوموٹو لے سکتی ہے

وجیہ احمد صدیقی/ مرزا عبدالقدوس
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف از خود نوٹس لے سکتی ہے۔ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر کوئی بھی شخص ان کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ان نامور وکلا کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت سمری آٹھ دن میں مکمل کر کے کیس کا ٹرائل شروع ہونا چاہئے۔ جبکہ عسکری تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ فوج کی انکوائری عام عدالتی کارروائی کی طرح نہیں ہوتی کہ اس کی کارروائی کی خبریں جاری ہوں یا اس کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ ان کا نام ای سی ایل میں ہے اور وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نہ صرف آئی ایس آئی کے چیف رہے، بلکہ ایم آئی کے بھی سربراہ رہے۔ انہوں نے ’’را‘‘ کے سابق چیف امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ مل کر کتاب لکھی، جس میں مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کے بارے میں ہرزہ سرائی کی گئی اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں اہم سوال اٹھایا کہ انہیں ایبٹ آباد آپریشن کا پہلے سے علم تھا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اہم قومی امور کے بارے میں ایسی باتیں کی گئیں جو سراسر قومی مفاد کے منافی ہیں۔ اس پر قومی حلقوں میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنے کے مطالبات سامنے آنے لگے۔ جس پر ان کے سابق ادارے نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اظہار کیا اور جنرل (ر) اسد درانی کو سمن جاری کر کے جی ایچ کیو طلب کیا گیا۔ تاہم ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، کسی کو نہیں معلوم۔
معروف قانون دان کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسد درانی کا جرم واضح ہے۔ انہوں نے اس کی تردید بھی نہیں کی اور نہ تردید ہو سکتی ہے۔ واضح ثبوت کی موجودگی میں انکوائری کی خاص ضرورت ہی نہیں۔ یہ اب تک واحد شخص ہیں، جو بیک وقت دو مختلف اداروں یعنی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ رہے۔ اتنے اہم عہدے پر رہنے والے شخص کو، ان کی کتاب کے مطابق ’’را‘‘ کے سابق چیف امرجیت سنگھ دولت کے فون آتے جاتے رہے۔ گھنٹوں باتیں ہوتیں۔ بیرون ملک ملاقاتیں ہوتیں۔ لیکن یہ کھوج نہیں لگایا جا سکا کہ روابطہ ہیں تو کیوں اور کیا ہونے جارہا ہے۔ ججز کہتے ہیں کہ ہمارے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں۔ سیاست دان بھی یہی کہتے ہیں۔ لیکن اتنے اہم افراد کی سرگرمیاں کیوں نہیں مانیٹر کی گئیں‘‘۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ اسد درانی نے اپنی کتاب میں کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ہے۔ سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے کردار پر اہم سوال کھڑا کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اس خطے میں مستقل امن کا حل اکھنڈ بھارت میں ہے۔ کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے بقول ’’آرمی ایکٹ 1954ء کے مطابق اس طرح کے جرم میں کیس کی سمری آٹھ دن میں مکمل کر کے اس کیس کا ٹرائل شروع ہونا چاہئے۔ لیکن اس کیس میں تو ٹرائل پر بھی وقت نہیں لگنا چاہئے کہ درانی کی اپنی کتاب کی صورت میں شواہد موجود ہیں۔ گزشتہ روز وزیر دفاع جو کہ خود بھی ریٹائرڈ جرنل ہیں، نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ سمری ٹرائل کے بعد اس کیس کا کیا ہوا، یہ انتہائی حساس معاملہ اس پر توجہ کی ضرورت ہے‘‘۔
وجیہ اللہ ایڈووکیٹ نے جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب اور ان کے خلاف کیس کے بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنا ان کے سابق ادارے کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اسد درانی نے بادی النظر میں قوم اور اپنے ادارے سے غداری کی ہے۔ لیکن اگر ان کے خلاف کارروائی یا کیس نہیں چلایا جا رہا تو وفاق کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے شخص کے خلاف ریفرنس دائر کرے، جس طرح پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس چل رہا ہے۔ اور اگر وفاقی حکومت بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو کوئی بھی شہری ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف رٹ دائر کرسکتا ہے کہ وہ ریاست کو حکم دے کہ غداری کے مرتکب شخص کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ اس صورت میں ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل خصوصی عدالت بنے گی، جس میں اس کیس کی سماعت ہوگی۔ کیس کا فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگے، یہ عدالت پر منحصر ہے‘‘۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں محمد اسرارالحق کا کہنا ہے کہ ’’اس کیس میں سپریم کورٹ بھی از خود نوٹس لے سکتی ہے۔ کوئی بھی شہری درخواست دائر کر کے سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں سنگین جرائم میں ملوث افراد عزت پا رہے ہیں، جبکہ معمولی جرم کے مرتکب افراد کی زندگیاں خوار ہوگئی ہیں۔ اسد درانی ہو یا عام شہری قانون کا اطلاق سب پر برابری کے ساتھ ہونا چاہئے‘‘۔
سپریم کورٹ کے سینئر قانون دان احسن الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’جنرل (ر) اسد درانی نے جو کچھ کیا قانون اور اصول کے مطابق وہ ملک کے خلاف ہے۔ ڈیفنس کے اپنے قوانین بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسد درانی نے سیکرٹ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ آرمی ایکٹ کی بھی سنگین خلاف ورزی کی۔ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر ان کے خلاف قانون کے آرٹیکل چھ کے تحت بھی کارروائی ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے۔ اسد درانی کا جرم تو انتہائی سنگین ہے۔ یہ تو غداری ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ جو دیگر کئی معاملات میں سوموٹو لے رہی ہے، وہ اس کا بھی سوموٹو لے سکتی ہے۔ کسی آرمی چیف یا جنرل نے این او سی لئے بغیر بیرون ملک ملازمت کی تو اس پر اس کے ادارے سے یا اس سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے تو اسد درانی کی کتاب تو اس سے کہیں زیادہ حساس اور سنگین کیس ہے۔ اس کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے خلاف کسی بھی ادارے کا کوئی بھی فرد جرم کرے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ ورنہ مشکلات بڑھیں گی اور قانون مذاق بن جائے گا‘‘
اس حوالے سے معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ فوج کی انکوائری عام عدالتی کارروائی کی طرح نہیں ہوتی کہ اس کی کارروائی کی خبریں جاری ہوں یا اس کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ اس کمیٹی نے کتنی بار اسد درانی کو طلب کیا ہے اور ان سے کیا کیا سوال پوچھے ہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی فوج کوئی فیصلہ کرے گی، جو جلد ہی سامنے آجائے گا۔ اسد درانی کا نام ای سی ایل پر ہے اور وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ ایک سوال پر بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں انکوائری کے نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے‘‘۔
عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جنرل (ر) اسد درانی نے اگرچہ اپنی کتاب میں کوئی نئی بات نہیں بیان کی لیکن تنازعہ یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کے چیف کے ساتھ مل کر یہ کتاب لکھی ہے۔ ویسے تو بہت سے لوگوں نے آرمی سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے دوران ملازمت اپنی کتاب ان دی لائن آف فائر لکھی، جو آرمی سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن کسی سزا کے بجائے آرمی کے سارے یونٹوںکو اس کتاب کو خریدنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کتاب میں کئی حساس راز بھی فاش کیے گئے تھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment