امت رپورٹ
دھاندلی کے خلاف مفاہمتی حکمت عملی پر پارٹی کے اندر شہباز شریف کی مخالفت بڑھنے لگی ہے۔ بعض رہنما خواجہ آصف کو پارٹی صدر بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ شیخو پورہ سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک نو منتخب رکن اسمبلی نے بتایا کہ پارٹی کے کم از کم 25 ارکان قومی اسمبلی اور 55 ارکان صوبائی اسمبلی ایسے ہیں جو، اب شہباز شریف کو پارٹی صدر نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان نو منتخب ارکان میں زیادہ تر کا تعلق شیخو پورہ، گوجرانوالہ، قصور اور سیالکوٹ سے ہے۔ نو منتخب رکن اسمبلی کے بقول شہباز شریف کی دھیمی پالیسی کے مخالفین کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر شہباز شریف نے بطور پارٹی صدر یہ سلسلہ جاری رکھا تو پارٹی بکھر جائے گی اور آنے والے وقتوں میں متعدد مایوس لیگی ارکان دوسرے راستے تلاش کر لیں گے۔ عہدیدار کے بقول بیشتر نو منتخب لیگی ارکان سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جو ووٹ پڑا ہے، وہ نواز شریف کے بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی مرہون منت ہے۔ تاہم شہباز شریف بطور پارٹی صدر اس بیانیے کو جارحانہ طریقے سے آگے لے کر چلنے سے گریزاں ہیں۔ جس سے مشکل وقت میں ووٹ دینے والے لیگی کارکنوں اور ووٹرز میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ عہدیدار کے مطابق ان ارکان میں سے بیشتر کا یہ بھی خیال ہے کہ خود کو بچانے کے لئے شہباز شریف کسی ڈیل میں مصروف ہیں۔ کیونکہ انہیں آشیانہ اسکیم اسکینڈل اور ماڈل ٹائون واقعے کے علاوہ عابد باکسر کے انکشافات کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ لہٰذا وہ کسی کے اشارے پر جارحانہ احتجاج پر آمادہ نہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ’’ن‘‘ راولپنڈی کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ راولپنڈی میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ ضلعی قیادت کے متعدد ارکان پارٹی سربراہ کے طور پر شہباز شریف کی حکمت عملی سے خوش نہیں ہیں اور بند کمروں کے اجلاسوں میں برملا یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی سکڑتی چلی گئی، اگر نواز شریف طویل عرصہ جیل میں رہتے ہیں اور شہباز شریف اسی ڈگر پر پارٹی کو چلاتے رہے تو پھر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا مستقبل بھی پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہوگا۔ عہدیدار کے بقول راولپنڈی پچھلے 30 برس سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا مضبوط سیاسی قلعہ تھا۔ حتیٰ کہ مشرف دور میں کرائے جانے والے 2002ء کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ راولپنڈی سے خاطر خواہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ لیکن 2018ء کے الیکشن میں راولپنڈی میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ عہدیدار کے مطابق مقامی پارٹی قیادت کے بیشتر لوگ اس اہم ضلع میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی شکست کا سبب بھی شہباز شریف کو سمجھتے ہیں۔ ان مقامی رہنمائوں کے بقول پارٹی کے اندرونی جھگڑوں نے اس شکست میں اتنا کردار ادا نہیں کیا، جتنا پارٹی صدر شہباز شریف کی عدم دلچسپی اس کی ذمہ دار ہے۔ نواز شریف کی عدم موجودگی میں شہباز شریف بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہے۔ اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کارکنوں اور ووٹرز کو متحرک کرنے کے لئے راولپنڈی کا ایک دورہ بھی نہیں کیا۔ حتیٰ کہ گرفتار لیگی امیدوار انجینئر قمر الاسلام کے کمسن بیٹے کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی نہیں پہنچے۔ اس کا نتیجہ تین دہائیوں بعد ضلع راولپنڈی میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی بدترین شکست کی صورت میں نکلا۔ اسی طرح شہباز شریف نے پارٹی رہنما حنیف عباسی کی گرفتاری پر ان کے گھر والوں کو تسلی دینے کی زحمت بھی نہیں کی۔
شہباز شریف کی مخالفت میں صرف لیگی نو منتخب ارکان کی طرف سے ہی آواز نہیں اٹھائی جا رہی، بلکہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی چیئرمینوں اور ڈپٹی چیئرمینوں میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ 2016ء کے بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے پنجاب سے کلین سوئپ کیا تھا۔ جبکہ صوبے کی 33 ضلعی کونسلوں میں سے 25 سیٹیں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے حصے میں آئی تھیں۔ ڈسٹرکٹ ملتان کے ایک وائس چیئرمین کے بقول لوکل باڈیز الیکشن میں لاہور، ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، سرگودھا، راولپنڈی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد اور ساہیوال سے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے 40 سے 45 فیصد ارکان بطور صدر شہباز شریف کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ آپس میں ہونے والی گفتگو میں یہ ارکان ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر صورت حال یہی رہی تو اگلے برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پنجاب سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف کی پارٹی صدارت کے معاملے پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی سوشل میڈیا ٹیم بھی تقسیم ہو چکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ عاطف رئوف اور نائب سربراہ ذیشان ملک شہباز شریف کی پالیسی کو سہارا دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا ٹیم کے بیشتر ارکان ان کی لائن پر چلنے سے انکاری ہیں۔ ان ارکان نے سوشل میڈیا پر شہباز شریف کے خلاف منظم مہم چلا رکھی ہے۔ اور ان کا مطالبہ ہے کہ شہباز شریف سے پارٹی صدارت لے کر کسی ایسے رہنما کے حوالے کی جائے جو نواز شریف کے بیانیے کو لے کر آگے چلے۔ ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ مریم نواز کی عدم موجودگی بھی اصل مسئلہ ہے۔ سوشل میڈیا ٹیم کو انہوں نے ہی مضبوط بنایا تھا۔ اور وہ مسلسل سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ نہ صرف رابطے میں رہتی تھیں، بلکہ وقتاً فوقتاً کنونشن بھی بلاتی رہتی تھیں، جس سے سوشل میڈیا ٹیم کا مورال بلند رہتا تھا۔ مریم نواز کی موجودگی میں ٹیم نے دیگر مخالف پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف کی مضبوط ترین سوشل میڈیا ٹیم کو ٹف ٹائم دے رکھا تھا۔ تاہم مریم نواز کے جیل جانے سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی سوشل میڈیا ٹیم اس وقت کمزور ترین حالت میں اور شہباز شریف کی پالیسی کے معاملے پر تقسیم ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ بعض دیرینہ ارکان سوشل میڈیا ٹیم کو چھوڑ کر بھی چلے گئے ہیں۔
ادھر جمعرات کو مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے کئی رہنمائوں نے اڈیالہ جیل میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کی تفصیل سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے بھی شہباز شریف کی اختیار کردہ پالیسی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے بقول بعض رہنمائوں کی جانب سے نواز شریف کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ پارٹی کو بچانے کے لئے شہباز شریف کو ہٹا کر خواجہ آصف کو پارٹی صدر بنا دیا جائے۔ تاہم فوری طور پر نواز شریف اس پر تیار نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق دھاندلی کے حوالے سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور اس کی دیگر اتحادی پارٹیاں جو احتجاج کر رہی ہیں، ان تمام تفصیلات سے نواز شریف آگاہ ہیں۔ تازہ ملاقات کے موقع پر بھی نواز شریف کو اس سلسلے میں بعض پارٹی رہنمائوں نے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر ایک رہنما نے یہ شکوہ بھی کیا کہ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے کئے جانے والے مظاہرے میں شہباز شریف کی عدم شرکت سے پارٹی کا مورال متاثر ہوا ہے اور مخالفین کے ہاتھ ایک نیا ایشو آ گیا ہے۔ واضح رہے کہ شہباز شریف یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ موسم میں خرابی کے باعث پرواز کینسل ہونے پر وہ اسلام آباد مظاہرے میں شرکت نہیں کر سکے۔ تاہم میڈیا میں یہ آ چکا ہے کہ اس روز لاہور سے اسلام آباد جانے والی کوئی پرواز کینسل نہیں ہوئی تھی۔ ٭
٭٭٭٭٭