مولانا اعزاز علی امروہویؒ، دارلعلوم دیوبند کے مشہور اساتذہ میں سے تھے۔ وہ درس و تدرس میں وقت کے انتہائی پابند تھے، انہیں درس گاہ کے دروازے پر دیکھ کر گھڑی ملائی جا سکتی تھی۔ پاکستان کے ممتاز عالم دین مفتی محمد شفیعؒ کو بھی انہی سے تلمذ حاصل تھا۔ ایک مرتبہ مولانا اعزاز علیؒ اور ان کے کچھ شاگردوں کو سفر پر جانا تھا۔ سب لوگ اسٹیشن پر جمع ہو کے ریل کا انتظار کر رہے تھے۔ مولانا نے ساتھیوں سے کہا ’’کئی افراد سفر پر جارہے ہوں تو انہیں شریعت کے مطابق اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالینا چاہیے، لہٰذا بہتر ہے کہ ہم امیر کا انتخاب کر لیں۔‘‘
مفتی محمد شفیعؒ نے عرض کیا: ’’حضرت انتخاب کا کیا سوال ہے۔ امیر تو پہلے ہی موجود ہیں۔‘‘ مولانا ان کا اشارہ سمجھ گئے، انہوں نے پوچھا ’’کیا آپ مجھے امیر بنانا چاہتے ہیں؟‘‘ سب نے یک آواز ہوکر جواب دیا کہ ’’جی ہاں۔ آپ کی موجودگی میں کسی اور کے امیر بننے کا کیا سوال ہے۔‘‘ مولانا نے کہا ’’ٹھیک ہے، مجھے کوئی تکلف یا اعتراض نہیں، لیکن یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ امیر کا حکم ماننا ضروری ہوتا ہے۔ آپ کو بھی میرے احکام ماننے ہوں گے۔‘‘ سب نے کہا ’’آپ کا حکم ویسے بھی ہمارے لیے واجب تعمیل ہے۔ امیر بننے کے بعد تو اطاعت اور زیادہ لازمی ہوگی۔‘‘ مولانا نے امارت قبول کرلی۔ تھوڑی دیر میں ریل آگئی۔ مولانا بجلی کی سی پھرتی سے اٹھے اور جلدی جلدی اپنے ساتھیوں کا سامان اٹھانے لگے۔ ایک چیز ہاتھ میں، دوسری بغل میں اور کوئی چیز دوسرے ہاتھ میں۔ غرض وہ جتنی چیزیں اٹھاسکتے تھے، انہوں نے اٹھالیں۔ یہ صورت حال دیکھ کے ان کے شاگرد بے چین ہوگئے، ہر شخص نے آگے بڑھ کر مولانا کے ہاتھ سے سامان چھیننا چاہا، لیکن مولانا نے سختی سے سامان سنبھالے رکھا اور کہا ’’میں آپ سب کا امیر ہوں۔ آپ وعدہ کرچکے ہیں کہ امیر کہنا مانیں گے، لہٰذا میں امیر کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ سامان مجھی کو اٹھانے دیجیے۔‘‘ شاگرد مجبوراً خاموش ہوگئے۔ پورے سفر میں مولانا کا یہی معمول رہا۔ جب بھی محنت و مشقت کا کوئی کام آتا، وہ خود آگے بڑھ کے انجام دیتے، کسی دوسرے کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ ملتی۔ آخر ایک بے تکلف شاگرد نے کہہ دیا کہ ’’حضرت! ہم تو آپ کو امیر بنا کے بہت پچھتائے۔‘‘ مولانا مسکرادیے۔ ان کی مسکراہٹ کا مقصد غالباً یہی تھا کہ امیر کا صحیح مطلب سمجھانا بھی تو میری ذمہ داری ہے۔ (مولانا تقی عثمانی بحوالہ اردو ڈائجسٹ)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭