ختم نبوت کے پہلے شہید

ایک جلیل القدر صحابی حضرت حبیب بن زیدؓ کو جھوٹے مدعی نبوت، مسیلمہ کذاب کے لوگ پکڑ کر لے گئے۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ سے پوچھا کہ ’’کیا تم حضرت محمدؐ کو خدا کا رسول مانتے ہو؟‘‘ جواب دیا ’’ہاں مانتا ہوں!‘‘ مسیلمہ نے دوسرا سوال کیا کہ ’’کیا تم مجھے رسول مانتے ہو؟‘‘ جواب میں اس صحابی رسولؐ نے فرمایا:
’’میرے کان تیری اس بات (یعنی دعویٰ نبوت) کو سننے سے انکاری ہیں۔‘‘
مسیلمہ نے صحابی رسولؐ کا ایک بازو کاٹنے کا حکم دیا۔ بازو کٹ گیا۔ مسیلمہ نے اپنا سوال دہرایا، مگر جواب وہی ملا۔ پھر دوسرا ہاتھ کاٹا گیا۔ وہ ظالم ایک ایک عضو کاٹتا رہا اور پوچھتا رہا۔ مگر ہر سوال پر جواب حسب سابق ہی تھا۔ حتیٰ کہ حضرت حبیب بن زیدؓ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں شہید کر دیا گیا، مگر ختم نبوت کے اس سب سے پہلے شہید نے جناب رسالت مآبؐ کی رسالت کے بعد کسی اور کے لیے رسالت و نبوت کا جملہ سننے کے لیے اپنے کانوں کو آمادہ نہیں پایا۔
ختم نبوت کیلئے آگ میں ڈالا گیا:
حضرت ابو مسلم خولانیؓ کا اسم گرامی عبداللہ بن ثوب ہے اور یہ امت محمدیہؐ کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں، جن کے لیے حق تعالیٰ نے آگ کو بے اثر فرمادیا، جیسے حضرت ابراہیمؑ کے لیے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دو عالمؐ کے عہد مبارک میں اسلام لا چکے تھے، لیکن سرکار دو عالمؐ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرتؐ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعوے دار اسود عنسی پیدا ہوا، جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لیے مجبور کیا کرتا تھا۔
اس ظالم نے حضرت ابو مسلم خولانیؒ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ حضرت ابو مسلمؒ نے انکار کیا۔
اس نے پوچھا: ’’کیا تم حضرت محمدؐ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘
حضرت ابو مسلمؒ نے فرمایا ’’ہاں‘‘
اس پر اسودعنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلمؒ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن رب تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء پر ہیبت طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کردو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروکاروں کے ایمان میں تزلزل نہ آجائے۔ چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کر دیا گیا۔
یمن سے نکل کر اب ان کے لئے ایک ہی جائے پناہ تھی یعنی مدینہ منورہ۔ چنانچہ یہ سرکار دو عالمؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلے، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتاب رسالتؐ روپوش ہو چکا ہے یعنی آنحضرتؐ وصال فرما چکے ہیں اور حضرت صدیق اکبرؓ آپؐ کے خلیفہ بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویؐ کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی شروع کردی۔ وہاں حضرت عمرؓ موجود تھے۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو یوں نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آکر بیٹھ گئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا: ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’یمن سے!‘‘ حضرت ابو مسلمؒ نے جواب دیا۔
حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا ’’خدا کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈالا تھا اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا۔ بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟‘‘
حضرت ابو مسلمؒ نے فرمایا ’’ہاں ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔‘‘
اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کر چکی تھی … فرمایا:
’’میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟‘‘
حضرت ابو مسلمؒ نے جواب دیا ’’جی ہاں!‘‘
حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرط مسرت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور انہیں لے کر سیدنا صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے۔ انہیں سیدنا صدیق اکبرؓ اور اپنے درمیان بٹھا کر فرمایا ’’خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہؐ کے اس شخص کی زیارت کرا دی، جس کے ساتھ حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ جیسا معاملہ فرمایا۔‘‘ (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment