خلاصۂ تفسیر
وَالنَّجمِ … الخ: لفظ نجم ستارے کے معنی میں آتا ہے، ہر ایک ستارے کو نجم اور جمع نجوم بولی جاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خاص طور سے ثریا ستارے کے لئے بھی بولا جاتا ہے، جو چند ستاروں کا مجموعہ ہے، اس آیت میں بھی بعض حضرات نے نجم کی تفسیر ثریا سے کی ہے۔ فراؒ اور حضرت حسن بصریؒ نے پہلی تفسیر یعنی مطلق ستارے کو ترجیح دی ہے (قرطبی) اسی کو اوپر خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا ہے۔
اِذَا ھَویٰ… لفظ ہوٰی، ساقط ہونے اور گرنے کے معنی میں آتا ہے، ستارے کا گرنا اس کا غروب ہونا ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھا کر رسول اکرمؐ کی وحی کا حق، صحیح اور شکوک سے بالاتر ہونا بیان فرمایا ہے، سورئہ صافات میں مفصل گزر چکا ہے کہ حق تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ خاص مصالح اور حکمتوں کے لئے اپنی خاص خاص مخلوقات کی قسم کھاتے ہیں، دوسروں کو اس کی اجازت نہیں کہ اسم باری تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھائے، یہاں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھائی، جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ستارے اندھیری رات میں سمتیں اور راستے بتانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان سے سمت مقصود کی طرف ہدایت ہوتی ہے، ایسے ہی رسول اقدسؐ سے خدا کے راستے کی طرف ہدایت ہوتی ہے۔
مَا ضَلَّ … الخ: یہ جواب قسم ہے، یعنی وہ مضمون ہے، جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے، معنی اس کے یہ ہیں کہ رسول اکرمؐ جس راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، وہ صراط مستقیم اور منزل مقصود یعنی رضائے الٰہی کا صحیح راستہ ہے، نہ آپؐ راستہ بھولے ہیں اور نہ غلط راستے پر چلتے ہیں۔
آنحضرتؐ کو لفظ صاحبکم سے تعبیر کرنے کی حکمت:
اس جگہ رسول اکرمؐ کا نام مبارک یا لفظ رسول و نبی ذکر کرنے کے بجائے آپ کی ذات کو لفظ صاحبکم سے تعبیر کرنے میں اشارہ اس طرف ہے کہ محمد مصطفیٰؐ کہیں باہر سے نہیں آئے، کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں، جن کے صدق و کذب میں تمہیں اشتباہ رہے، بلکہ وہ تمہارے ہر وقت کے ساتھ ہیں، تمہارے وطن میں پیدا ہوئے ہیں، یہیں بچپن گزارا، یہیں جوان ہوئے، ان کی زندگی کا کوئی گوشہ تم سے مخفی نہیں اور تم نے تجربہ کرلیا ہے کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کسی غلط اور برے کام میں تم نے ان کو بچپن میں بھی نہیں دیکھا، ان کے اخلاق و عادات، ان کی امانت و دیانت پر تم سب کو اتنا اعتماد تھا کہ پورے مکہ والے آپ کو امین کہا کرتے تھے، اب دعوائے نبوت کے وقت تم ان کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنے لگے، جس نے انسانوں کے معاملے میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، غضب ہے کہ اس پر یہ الزام لگانے لگے کہ اس نے خدا تعالیٰ کے معاملے میں جھوٹ بولا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭