مال مشترک میں سے ایک بکرا قربانی کر دینا کافی نہیں۔ بکرا قربانی کی نیت سے دو شخصوں کی طرف سے کیا جائے تو خواہ فرض قربانی ادا کرنا مقصود ہو یا نفلی، ناجائز ہے اور وہ قربانی نہ ہوگی (کیوں کہ بکرا، مینڈھا، دنبہ، (نر و مادہ) میں صرف ایک ہی حصہ ہوتا ہے)
اولاد یا بیوی اگر خود صاحب نصاب ہوں تو خود ان پر قربانی کرنا واجب ہو گی اور اگر وہ صاحب نصاب نہ ہوں تو شوہر اور والد پر ان کی طرف سے قربانی کرنا ضروری نہیں۔
صاحب نصاب شخص پر ایک ہی قربانی واجب ہوتی ہے، دو نہیں۔ خواہ وہ کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، ایک شخص کی ملک میں کتنے ہی نصاب جمع ہو جائیں اس پر ایک ہی قربانی واجب ہو گی۔
اگر کوئی چیز ضرورت سے زائد فروخت کر کے قربانی کر سکے تو واجب ہو گی، ورنہ نہیں۔ قرض دار لوگ اگر قرض ان کے مال کو محیط ہو، قربانی نہ کریں، لیکن اگر کر لیں گے تو قربانی ہو جائے گی۔ (کیونکہ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ قرض لے کر قربانی جائز نہیں اور ثواب نہیں ملتا، یہ غلط ہے۔ ثواب ضرور ملتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ قرض لے کر قربانی کرنا بہتر نہیں ہے، جہاں تک ہو سکے قرض سے بچنا چاہیے)۔
طالب علم پر نفلی قربانی سے بہتر دینی کتابیں خریدنا ہے۔ جو قربانی دوسرے کی طرف سے تبرعاً کی جائے، چونکہ وہ ملکیت قربانی کرنے والے کی ہوتی ہے اور صرف دوسرے کو ثواب پہنچتا ہے۔ اس لیے ایک حصہ ثواب کے اعتبار سے کئی طرف سے بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ مسلم شریف میں ہے کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرکے متعدد کو ثواب پہنچانا جائز ہے، بس یہ بھی ویسا ہی ہے۔
ایصال ثواب کے لیے ضروری نہیں کہ گائے (بڑے جانور) میں سات آدمیوں کو ایصال ثواب کیا جائے، جتنے آدمیوں کو ثواب پہنچانا منظور ہو ثواب بخش سکتے ہیں۔
نوٹ: قربانی میں تبرع کی (اپنی طرف سے قربانی کرنے کی) قید سے وہ صورت نکل گئی کہ میت نے اپنے مال سے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو اس صورت میں ایک حصہ ایک ہی کی طرف سے ہوگا۔
قربانی کے دنوں میں میت کے ایصال ثواب کے لیے پیسہ وغیرہ صدقہ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچانا افضل ہے، کیونکہ خیرات میں فقط مال کا ادا کرنا ہے اور قربانی میں مال کا ادا کرنا بھی اور فدا کرنا بھی یعنی دو مقصد پائے جاتے ہیں۔
دو شخصوں نے دو بکروں کو قربانی کے ارادے سے خریدا اور بھول کر ایک نے دوسرے کی بکری کو ذبح کرڈالا تو دونوں کی قربانیاں درست ہوں گی اور کسی پر بدلہ دینا واجب نہ ہوگا۔ اگر کسی نے کسی کی بکری (قربانی کے جانور) کو غصب کرکے قربان کر ڈالا تو قربانی ادا ہوگئی، لیکن مالک کو اس بکری کی قیمت دینا واجب ہو گی، غصب کا گناہ بھی اس کے سر پر ہے۔
امانت اور بضاعت (یعنی کسی نے تجارت کرنے کے لیے رقم دی ہے، اپنا بھی حصہ رکھا ہے، اس رقم سے قربانی جائز نہیں) شرکت یعنی پالنے کے لیے دیئے ہوئے جانور کی اور عاریت یعنی ادھار لیے ہوئے جانور اور بیوی کو شوہر کا جانور اور شوہر کو بیوی کا جانور اور رہن (گروی) کے جانور کو قربانی کرنا درست نہیں، کیونکہ وہ غیر کی ملک میں ہے۔
قربانی کے لیے کسی نے بڑا جانور خریدا اور خریدتے وقت یہ نیت کی کہ اگر کوئی مل گیا تو اس کو بھی اس میں شریک کر لیں گے اور شراکت میں قربانی کریں گے۔ اس کے بعد اس جانور میں کچھ اور لوگ شریک ہوگئے تو یہ درست ہے اور اگر خریدتے وقت اس کی نیت شریک کرنے کی نہ تھی، بلکہ پورے جانور کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کا ارادہ تھا تو اس میں کسی اور کا شریک ہونا بہتر تو نہیں ہے، لیکن اگر کسی کو شریک کرلیا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ شریک کرنے والا صاحب نصاب امیر ہے تو درست ہے اور اگر غریب ہے تو درست نہیں ہے، یعنی غریب شخص کے واسطے یہ درست نہ ہوگا کہ وہ اپنے خریدے ہوئے جانور میں کسی اور کو شریک کرے، اگر وہ کسی شخص کو شریک کرے گا تو شریک ہونے والے شخص کی قربانی کے ادا ہو جانے کا حکم ہوگا اور اس شرکت کے باعث دیگر شرکا کے حصوں کے اندر کسی طرح نقصان واقع نہ ہو گا۔ البتہ غریب شخص پر واجب ہوگا کہ جتنے حصے اور لوگوں کو دیئے ہوں ان کے ضمان کی ادائیگی اس طریقہ سے کرے کہ ایام قربانی باقی ہوں تو اس قدر حصوں کی قربانی کر دے اور اگر قربانی کے دن ختم ہو گئے ہوں تو ان دیئے گئے حصوں کی قیمت مسکینوں کو عطا کرے۔ (کیونکہ غریب آدمی جس پر قربانی واجب نہیں ہے، اس کے لیے جانور خریدنا جبکہ نیت پورے کی ہو، نذر کے حکم میں ہو جاتا ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری ہے)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭