نواب مرزا حیص بیص کے عالم میں بادل ناخواستہ ماں کے پاس سے اٹھا۔ ادھر وزیر نے بیوگی کے بعد پہلی بار ٹھیک سے منہ ہاتھ دھوئے اور منہ کو دستمال سے خوب رگڑا کہ آنسوئوں کی لائی بے رونقی جاتی رہے۔ اچھے اور صاف لیکن سفید کپڑے پہنے، بالوں میں کنگھی کی، کانوں میں گوشوارے ڈالے، دو انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنیں، پھر حبیبہ کو پھوپھیا ساس کی طرف اطلاع کرنے کے لئے بھیجا کہ خانم صاحب تشریف لاتی ہیں۔
وزیر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر امیرالنسا کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اسے ہر گز توقع نہ تھی کہ چھوٹی بیگم اس قدر جرات مندی سے کام لے گی۔ وہ دیکھ ہی چکی تھی کہ قلعہ معلیٰ میں وزیر کا کیا رسوخ ہے۔ اور شروع شروع میں اسے اندیشہ تھا کہ وزیر اس رسوخ کو استعمال کر کے ہم لوگوں کے لئے مشکلیں پیدا کرے گی، یا اور کچھ نہیں تو شاید شاہ محمد آغا کو ہم لوگوں سے بالکل الگ کرلینے کے لئے موثر قدم اٹھائے گی۔ لیکن امیر النسا اور نور فاطمہ نے بھی ٹھان لی تھی کہ بچے کو وزیر کے قبضے میں نہ جانے دیں گی اور اس غرض سے وہ نہ صرف یہ کہ شاہ محمد کو آغا کو اپنی طرف روکے رہنے اور اسے اپنے سے مانوس کرنے کی پوری سعی کر رہی تھیں، بلکہ قلعہ معلیٰ میں بعض بیگمات کے ذریعے حضور نواب صاحب بہادر تک یہ بات بھی پہنچانے کی سبیل کر رہی تھیں کہ وزیر کے پاس رہ کر بچے کی پرداخت، مذہب صحیحہ پر نہ ہو سکے گی۔ ابھی اس معاملے میں انہیں کچھ مبہم سے موافقانہ اشارے ہی ملے تھے لیکن توقع انہیں پوری تھی کہ نتیجہ ہمارے حسب دلخواہ ہو گا۔
وزیر جب امیرالنسا کے حجرے میں آئی تو نور فاطمہ بڑے پلنگ کے پاس چوکی پر کھیلتے ہوئے محمد آغا کو یوں ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی گویا وہ ابھی ابھی کھیلتیے کھیلتے سو گیا ہو۔ لیکن بچہ بار بار اس کی گرفت سے نکل کر کھلونوں کی طرف ہمکتا تھا۔ وزیر نے اسے اٹھا لینے کے لئے بازو بڑھائے تو ماں کو دیکھ کر اس نے قلقاری ماری۔ لیکن اس کی گود میں آنے کے لئے بدن کو کچھ بھی آگے نہ بڑھایا۔ اس کی توجہ کھلونوں ہی کی طرف رہی۔ نور فاطمہ نے اسے مصنوعی طور پر تھپکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’اللہ ابھی سو رہیئے شاہ صاحب۔ ابھی کچھ بہت دن نہیں چڑھا ہے۔ دیکھئے نہ آپ کی آنکھوں میں ننی بیگم بیٹھی ہوئی ہیں، کہتی ہیں یہ پلکیں جھپکتیاں تو ہم بھی ذری آرام کر لیتے‘‘۔
بچے کو ان چکنی چپڑی باتوں سے لاتعلق بار بار نور فاطمہ کے ہاتھوں سے نکل کر کھلونوں کی طرف لپکتے دیکھ کر وزیر خانم نے کہا ’’بھئی واہ بچے کو رجھانے کے خوب جتن ہو رہے ہیں‘‘۔
نور فاطمہ نے چمک کر کہا ’’جی ہاں، بھلا کوئی مردوں کو رجھائے کوئی ننھے معصوموں کو بہلائے‘‘۔
’’بے شک۔ اور بعض بعض بیبیاں تو کسی کو رجھانے کے ارمانوں میں زندگی گزار دیتی ہیں۔ انہیں کوئی جڑے تو سہی‘‘۔
’’جنہیں آبرو پیاری ہوتی ہے۔ وہ مالک سے لو لگاتی ہیں اور جنہیں مال پیارا ہوتا ہے ان کا جوبن رکابی میں پھلتا پھولتا ہے‘‘۔
’’عصمت بی بی از بے چادری ہے بی نور فاطمہ۔ اس چھوٹی سے کوٹھریا کے باہر بھی دنیا ہے۔ وہاں یہ تریاچر نہیں چلیں گے۔ مگر چھوڑیئے، میرے بچے پر اپنا عمل کر چکی ہوں تو لایئے مجھے دیجئے۔ اس بیچارے کو پتہ تو لگے کہ اس کی کوئی ماں بھی ہے‘‘۔
امیرالنسا نے بڑھ کر محمد آغا کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں ’’اے ہے بی بی کی زبان کیا ہے رانڈ کا چرخا ہے کہ چلے ہی جاتا ہے۔ کان کھول کر سن لو۔ تم اس کی ماں ہو گی، لیکن ہم اس کے وارث ہیں اور وہ ہمارا وارث ہے‘‘۔
’’سبحان اللہ۔ آج تک تو سنا تھا کہ بچے کے باپ ماں اس کے وارث ہوتے ہیں اور بچہ ان کی وراثت پاتا ہے۔ اب یہ بوڑھی جروا نام ختیجہ اس کی وارث بننے آئی ہیں۔ کھانے کو روٹی نہیں اور پہننے کو لتا نہیں اور میرا پلا پلایا بچہ ہتھیانے کے فراق میں ہیں۔ سنا نہیں کیا ہاتھی پھرے گائوں گائوں جس کا ہاتھی اس کا نائوں‘‘۔
’’سیدھے سبھائو بات کرو چھوٹی۔ یہ دلی نہیں، رام پور ہے۔ گھڑی بھر میں سارے بل نکلوا دیئے جائیں گے‘‘۔
’’میرا بل میرا اللہ ہے اور میرے نواب ہیں‘‘۔
’’تمہارے نواب کہاں سے ہو گئے بیگما۔ تم غیر ذات غیر مذہب غیر گھر کی لگائی، جس نے چار پیسے دکھائے اسی کی ہو رہیں‘‘۔
’’پھوپھی صاحب۔ آپ کو گالیوں کا گالا بنا کر ہوا میں اڑا دوں گی، لام کاف بکنے سے بچہ آپ کا نہ ہو جائے گا‘‘۔
’’بچہ تمہارے ہاتھ میں دے دوں کہ تم اس کا مذہب چھڑادو۔ اس کی دنیا اور عاقبت دونوں خراب ہو جائیں۔ یہی تو تم چاہتی ہو، کیوں؟‘‘۔
’’ماں کا مذہب اس کی مامتا ہے اور کچھ نہیں۔ اور عادل بادشاہ کا مذہب رعایا کے ساتھ انصاف۔ اس دھوکے میں نہ رہئے گا کہ ماں سے اس کا بچہ چھین لیں گے۔ راحت افزا کی بارات کے معاملے میں آپ منہ کی کھا چکی ہیں‘‘۔
اونچی اور برہم آوازوں سے شاید گھبرا کر شاہ محمد آغا نے اب کھیلنے اور سونے دونوں سے دل ہٹا لیا تھا اور چوکی سے اتر کر ماں کی طرف آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’اے دیکھئے شاہ صاحب کہیں گر نہ پڑیں‘‘۔ وزیر نے بے قرار ہو کر کہا اور بڑھ کر بچے کو گود میں اٹھاتی ہوئی بولی ’’مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ دونوں کیا چاہتی ہیں۔ آپ کو یہ گھر اور میرے شہید شوہر کی ساری املاک چاہئے۔ وہ ہے ہی کتنی، لیکن آپ جیسی کنگلیوں کے لئے وہ تو پوری بادشاہت ہے۔ میرے مرحوم شوہر آپ کے کفیل تھے‘‘۔
’’تو تمہارے ہی پاس کیا ہے چھوٹی بیگم؟ تم بھی تو انہیں کے ٹکڑوں کی محتاج ہو‘‘۔ امیر النسا نے کہا۔
’’میرے پاس کچھ نہیں، لیکن مجھے اپنی توقیر پیاری ہے۔ مجھے اپنی عزت کا پاس ہے‘‘۔
’’تو تم یہاں ہماری چھاتی پر مونگ دلتی رہو گی؟ یہی تمہاری توقیر ہے؟‘‘۔
وزیر خانم نے نخوت سے بھرپور طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا ’’ تو یوں کہیئے۔ ساس گئی گائوں بھوکھی میں کیا کھائوں والا معاملہ ہے؟‘‘۔
نور فاطمہ نے اٹھ کر بچے کو وزیر کی گود سے لینا چاہا اور بولی ’’چپ رہئے، ہماری غرض صرف اس معصوم سے ہے‘‘۔
وزیر نے بچے کو اپنے سینے سے مضبوط لگا لیا اور اسی طرح مسکرا کر بولی۔ ’’تم شاید سن نہیں رہی ہو نند جی۔ تمہاری پیاری پھوپی صاحب کو صرف مجھ سے غرض ہے۔ اس معنی میں کہ میں اپنا گھر ان کے حوالے کر کے جنگل کی راہ لوں‘‘۔
’’چھوٹی بیگم، جیسا آپ کا نام بدنام ہے، ویسا ہی آپ کا دل بھی برائی کی پوت ہے‘‘۔ نور فاطمہ بھنا کر بولی۔
’’نور بی بی ذرا کان کھول کر سنو اور آنکھ کھول کر دیکھو۔ ان کی قسمت سے آغا صاحب مرحوم کو اللہ نے بلا لیا تو آپ ان خیالوں میں ہیں کہ بچارہ شہید جو کچھ چھوڑ گیا اسے میں ہی ہتھیا لوں اور کسی کو کچھ نہ ملے چاہے وہ ان کی اولاد ہی کیوں نہ ہو، بہن ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
’’تم ہم دونوں کو لڑوا کر اپنا کام نکالنا چاہتی ہو تو سن لو یہ کبھی نہ ہوگا۔ نور فاطمہ تمہاری ذات اور اوقات سے خوب واقف ہیں‘‘۔
’’مگر بچاری آپ کی ذات اور اوقات سے تو واقف نہیں‘‘۔ وزیر نے ہنس کر کہا۔ ’’خیر چھوڑیئے۔ کام کی بات کیجئے۔ یہ بات تو کھل ہی گئی ہے کہ آپ کو شاہ محمد آغا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔
’’ہے کیوں نہیں؟ کیا ہم اسے اپنے بزرگوں کے طریق سے محروم رکھیں اور خود بھی گناہ گار ہوں؟‘‘۔
’’اصل دین تو دین اسلام ہی ہے…‘‘۔ وزیر بولی۔
اس کی بات کاٹنے کی کوشش کرتے ہوئے نور فاطمہ نے کہا ’’لیکن…‘‘۔
’’ذری غم کھائو نور فاطمہ، میری بات پوری ہونے دو‘‘۔ وزیر نے متین لہجے میں کہا۔ ’’میں کہتی ہوں دین تو ایک ہی ہے، بات صرف مسلک کی ہے۔ تو میں آپ سے عہد باندھتی ہوں کہ شاہ صاحب کو ان کے باپ کے مسلک پر ہی رکھوں گی۔‘‘
پھوپھی بھیتجی ایک لمحے کے لئے سناٹے میں آ گئیں۔ پھر امیرالنسا نے بیچارگی کے استدلال سے کام لیا ’’اور جو تم اپنے قول سے پھر جائو؟‘‘۔
’’توباہ ہے۔ اپنے قول سے مکر جائوں، جہنم کا کندہ بنوں؟‘‘۔
’’نہیں، ہمیں کچھ اور مضبوطی چاہئے‘‘۔ امیرالنسا نے کہا۔ پھر کچھ سوچتی ہوئی وہ بولی ’’اور… اور وہ جو دوسری بات ہے…؟‘‘۔
’’کہیئے کہیئے، صاف کہیئے‘‘۔ وزیر نے مسکرا کر کہا۔ ’’اچھا جانے دیجئے، کیوں آپ کو شرمندہ کروں۔ سنئے، میں یہاں نہ رہوں گی، جہان آباد اپنے گھر میں رہوں گی۔ یہ گھر اور سامان اور جائیداد آپ کو مبارک رہے‘‘۔
پھوپھیا ساس اور نند دونوں نے کچھ کہنے کے لئے بیک وقت منہ کھولا، لیکن کچھ کہہ نہ سکیں۔ احمقوں کی طرح ایک دوسری کو تکتی رہیں۔ اس دوران وزیر اپنے بچے کو چمکارتی اور توتلی زبان میں اس سے بولتی رہی۔ کچھ دیر کے بعد نور فاطمہ کو جیسے ہوش آیا۔ وہ کچھ گھبرائی ہوئی سی بولی ’’اور شاہ محمد آغا…؟‘‘۔
’’ان کی پرورش اور تعلیم باپ کے مذہب کے مطابق ہوگی۔ میں سر خط لکھ دوں گی۔ یہاں کی جائیداد آپ کی، اس شرط پر کہ بالغ ہونے پر وہ اس کے حق دار ہوں گے۔ اس کاغذ پر آپ دونوں کے بھی دستخط ہوں گے، سن لیا آپ لوگوں نے؟‘‘۔
’’ہاں۔ سن لیا‘‘۔ دونوں عورتوں نے بمشکل یہ دو الفاظ ادا کئے تھے کہ وزیر خانم ’’اچھا، بہت خوب، تو میں چلی‘‘ کہہ کر بچے کو گود میں اٹھائے اٹھائے باہر آ گئی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭