احمد نجیب زادے
فرعونی دور کے دیوتا ابوالہول کا نیا مجسمہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ دیو قامت بُت کو مصر میں غزہ شہر کے قریب سڑک بنانے والے انجینئرز نے دریافت کیا ہے، جو اب بھی زیر زمین ہے۔ تاہم برطانوی ماہرین نے اسے قدیم شہر کا داخلی دروازہ کہہ کر مقبول کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں سڑک بنانے والے مصری انجیبئر کو جب علم ہوا کہ اس جگہ عظیم مصری تاریخ کے کردار ابو الہول کا دوسرا مجسمہ بھی ریت تلے دبا ہوا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ اس عجیب و غریب لیکن قیمتی دریافت سے مصری ماہرین اور حکومت میں ایک نیا جوش پایا جاتا ہے، جبکہ دیو مالائی اور پر اسرار مصری تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد مصر سمیت دنیا بھر سے ابو الہول (sphinx) کے دوسرے مجسمہ کو دیکھنے کی اشتیاق میں مصر پہنچ رہے ہیں۔ مصری ڈائریکٹر جنرل آف این ٹیکس ایم عبد العزیز نے ابوالہول کے نئے مجسمہ کی دریافت سے متعلق بتایا ہے کہ اس کی تاریخ تین ہزار سال پرانی ہے، مجسمہ کو ابھی زمین سے مکمل طور پر باہر نہیں نکالا جاسکا ہے، لیکن شائقین اس کو دیکھنے کیلئے ابھی سے جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جائے دریافت پر پہنچ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ابوالہول کے نئے دوسرے جوڑی دار مجسمہ کی دریافت نے برطانوی محقق گیری کینن کے اس نظریہ میں جان ڈال دی ہے کہ ابوالہول کا مجسمہ کوئی عام بت نہیں بلکہ کسی قدیمی مصری تاریخی شہر کا داخلی دروازہ ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق برطانوی محقق گیری کینن نے برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کے اس مطالبہ کو وقعت دینی چاہئے کہ مصرکی فرعونی تاریخ کے زیر زمین اور پُر اسرار شہر کو دریافت کیا جائے۔ مصری حکام کا خیال ہے کہ ابوالہول کے دوسرے مجسمہ کی دریافت نے مصری سیاحت کو ایک نئی زندگی دی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ہزاروں سیاح ابو الہول کے اس نئے دریافت شدہ مجسمہ کو دیکھنے جوق در جوق مصر پہنچیں گے۔ برطانوی ماہر نے کہا ہے کہ گمشدہ فرعونی شہر تک جانے کیلئے ابو الہول کے مجسمہ کے سر کے اوپر کی جانب ایک بڑا کنویں نما سوراخ ہے، جو اس زیر زمین پر اسرار اور افسانوی شہر تک جانے کا داخلی راستہ ہے۔ مصری وزیر برائے آثار قدیمہ خالد العنانی کا کہنا ہے کہ ابوالہول کا پرانا مجسمہ دریائے نیل کے مغربی کنارے پر غزہ شہر میں ایستادہ ہے جو دنیا بھر میں کسی بھی قسم کا پہلا دیو ہیکل چٹانی مجسمہ ہے جس کو سورج دیوتا کے روپ میں ماہرین نے تراشا تھا، لیکن امتداد زمانہ کے سبب یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے۔ بہرحال نئے ابوالہول کے دوسرے مجسمہ کی دریافت نے ابھی سے ماہرین اور عوام کے اندر جوش بھر دیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ ابھی مصری سرزمین پر ایسے مزید نوادرات، مجسمہ اور قصائص سامنے آئیں گے، جن سے ہمیں اس عظیم سلطنت کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملے گا۔ انسان اور سر یا چوپائے جانور کے دھڑ والا یہ مجسمہ مصری عوام کیلئے دریافت کے بعد اس قدر ہولناک تھا کہ انہوں نے اس کو اصل نام سے پکارنے کے بجائے ’’ابوالہول‘‘ یا خوف کا باپ کہنا شروع کردیا تھا۔ مصری تاریخ کے مطابق ابوالہول کا مجسمہ ایک خاص پر اسراریت رکھتا ہے اور ایک ایسی افسانوی مخلوق ہے جو سر انسان کا اور جسم شیر کا رکھتی ہے اور اپنے اندر ایسی طاقت چھپائے ہوئے ہے جس سے عام لوگ نا آشنا ہیں۔ اس سلسلے میں 2017 میں ایک مقالہ میں مصری ماہرین آثار قدیمہ کے ساتھ کام کرنے والے بعض عالمی محقق حضرات نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس بارے میں تحقیق سے روک دیا ہے کہ در اصل مصری مجسمہ ابو الہول کسی تاریخی اور پر اسرار مصری فرعونی شہر کا اندرونی یا داخلی دروازہ ہے۔ مصری حکام نے کئی عالمی محققین کے اس دعویٰ یا نظریہ پر مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے کہ مصری ابو الہول کے مجسمہ کے اطراف یا اندر جدید ترین ریڈیو کاربن یا ایکسرے ٹیکنالوجی کی مدد سے جانچا جائے کہ پر اسرار مصری فرعونی شہر کے کھنڈرات کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے۔ برطانوی پروفیسر گیری کہتے ہیں کہ اگر اس مجسمہ کو داخلی دروازہ مان کر جانچ کی جائے تو ہمیں ایسے گمشدہ مصری شہر کا سراغ مل سکتا ہے جو قیمتی معلومات فراہم کرسکتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں ابو الہول کے مجسمہ ایک دوسرے سے قریب قریب اور متوازی کیفیت میں موجود ہیں۔ غزہ کے علاقہ میں موجود ابو الہول کا پہلا پراسرار مجسمہ 190 فٹ طویل اور65 فٹ اونچا ہے اور اگرچہ کہ اس مجسمہ کی ناک اور اعضا ٹوٹ چکے ہیں لیکن اس کی اپنی ہیبت اور دبدبہ اب تک قائم ہے۔ دور سے پہاڑ کی موافق دکھائی دینے والا یہ دیو ہیکل مجسمہ ایک بہت بڑے پہاڑ کو تراش خراش کرکے بنایا گیا ہے جس میں ایک شیر کو انسانی شکل میں بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں یہ عظیم پہیلی بھی موجود ہے کہ ابو الہول جب ایک عفریت کی شکل میں موجود تھا تو انسانوں سے یہ پوچھتا تھا کہ وہ کون سا جانور ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے اور دوپہر کو دو ٹانگوں پر کھرا ہوجاتا ہے اور شام کو تین ٹانگوں کی مدد سے چلتا پھرتا ہے، اور جو کوئی اس پہیلی کا جواب نہیں دے پاتا تھا اس کو یہ ابولہول کھا جاتا تھا لیکن ایک انسان نے اس کو یہ جواب دے کر لاجواب کردیا تھا کہ وہ جانور انسان ہے، جو صبح (یعنی اپنی زندگی کی ابتدا میں) چار ٹانگوں پر چلتا ہے اور دوپہر (جوانی میں) دو ٹانگوں کا استعمال کرتا ہے اور شام کو (اپنی زندگی کی شام یعنی بڑھاپے) میں لاٹھی کی مدد سے تین ٹانگوں سے چلتا پھرتا ہے ۔
٭٭٭٭٭