ظالم جاگیردار کو بچے کے انگوٹھے کاٹ کر بھی چین نہ ملا

محمد زبیرخان
شیخو پورہ میں غریب مزارع کے بچے کے دونوں پائوں کے انگوٹھے کاٹنے والے ظالم جاگیردار نے متاثرہ خاندان کا جینا حرام کر دیا ہے۔ متاثرہ خاندان نے چیف جسٹس سے مدد اور انصاف کی اپیل کر دی۔ جبکہ اب تک کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم نے متاثرین کا ساتھ نہیں دیا۔ انتہائی غریب اور ان پڑھ خاندان کیلئے عدالتوں میں مقدمہ لڑنا ناممکنات میں سے ہے ۔ متاثرہ خاندان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر صلح نہ کی تو پورے خاندان کے بچوں کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں گی۔ متاثرہ خاندان خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پولیس نے مقدمے میں حبس بے جا اور لیبر قوانین کے تحت کم عمر بچوں سے مزدوری کرانے کی دفعات شامل نہیں کی ہیں۔
شیخو پورہ کی حدود تھانہ فیکٹری ایریا پولیس اسٹیشن میں بارہ سالہ نادر اور اس کے والد شہباز کی جانب سے درج کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ… بارہ سالہ نادر گزشتہ کچھ عرصہ سے مقامی زمیندار رفاقت کے کھیتیوں میں ملازم تھا۔ چند دن قبل زمیندار نے رفاقت کو کوئی کام کرنے کا کہا تو اس پر نادر نے کسی وجہ سے انکار کر دیا، جس پر زمیندار نے مشتعل ہو کر کلہاڑی سے وار کر کے اس کے دونوں پائوں کے انگوٹھے کاٹ دیئے۔ درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے بعد زمیندار نے نادر کو 13 روز تک اپنی قید میں بھی رکھا تھا۔ پولیس اسٹیشن فیکڑی ایریا کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نادر اور اس کے والد شبہاز کی درخواست پر پولیس نے پینل کوڈ 336/34 PPC کے تحت مقدمہ درج کر کے تین نامزد ملزمان رفاقت، الطاف اور اتفاق کو گرفتار کر لیا ہے۔ تاہم پولیس نے اس مقدمے میں حبس بے جا میں رکھنے اور کم عمر بچوں سے مشقت لینے کے لیبر ایکٹ کے تحت دفعات کو شامل نہیں کیا ہے۔
نادر کے والد شہباز نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ… ’’یہ واقعہ کوئی دو ہفتہ قبل پیش آیا۔ اس موقع پر ہمیں زمیندار رفاقت نے اس واقعے سے مکمل بے خبر رکھتے ہوئے نادر کو اپنی حویلی میں قید میں رکھا اور ہمیں بتایا کہ نادر کو دوسرے کھیتوں میں کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ جب زیادہ دن گزر گئے اور ہم نے شور شرابا کیا تو ایک دن نادر گھر واپس آ گیا۔ لیکن اس کے دونوں پائوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس سے جب پوچھا تو اس نے واقعے کے متعلق بتایا اور اس کے بعد ہم سب گھر والوں نے جا کر مقامی پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کرادیا‘‘۔ شبہاز کا کہنا تھا کہ ’’پہلے تو پولیس اسٹیشن میں مقدمہ ہی درج نہیں کیا جا رہا تھا اور ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ ہم صلح کرلیں۔ جب ہم نے صلح سے انکار کیا اور میڈیا کے کچھ لوگ آئے اور یہ خبریں چلیں تو مقدمہ درج کیا گیا۔ اب ہمیں زمیندار کے گھر والے دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر صلح نہ کی تو ہمارے خاندان کے تمام بچوں کے پائوں کاٹ دیئے جائیں گے‘‘۔ شہباز نے مزید بتایا کہ ’’پولیس نے ہمیں بتایا ہے کہ تینوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن ہمارے پاس تو اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ ہم شیخو پورہ شہر کی عدالت میں جائیں اور وکیل کریں۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ہم پر شدید دباؤ ہے اور عملاً ہمارا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ہم سب خوف کا شکار ہیں‘‘۔ ایک سوال پر شہباز کا کہنا تھا کہ اب تک کسی بھی حکومتی عہدیدار، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکنان ہماری مدد کو نہیں آئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے ہم سے ہمارے مسائل پوچھے ہیں۔ لیکن چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم صلح نہیں کریں گے۔ لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم عدالتوں میں جا کر مقدمے کی پیروی کر سکیں۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر اعلیٰ حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہماری مدد کو آئیں اور ہمیں انصاف فراہم کریں‘‘۔
دوسری جانب پنجاب چائلڈ بیورو کے ترجمان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ… ’’مقدمہ درج ہو جانے کے بعد چائلڈ بیورو کے پاس قانونی طور پر مقدمے میں انوالو ہونے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ تاہم چائلڈ بیورو متاثرہ خاندان سے رابطہ قائم کرے گا اور ان کو اگر کسی قسم کی مدد چاہئے ہوگی تو وہ ان کو فراہم کی جائے گی۔ لیبر قوانین کے تحت کم عمر بچوں سے مشقت کرانا جرم ہے اور مقدمے میں لیبر قوانین کی یہ دفعات بھی شامل ہونی چاہئیں تھیں‘‘۔ ایک سوال پر ان ترجمان کا کہنا تھا کہ چائلڈ بیورو، ایف آئی آر کی کاپی دیکھ کر فیصلہ کرے گا کہ اس سلسلے میں وہ کیا کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment