سیاسی بنیادوں پر بھرتی27 سفارت کاروں کوہٹائے جانے کا امکان

مرزا عبدالقدوس
امریکہ میں ڈھائی ماہ پہلے تعینات کئے جانے والے پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی کی واپسی پندرہ روز کے اندر متوقع ہے اور نئی حکومت ان کی جگہ کسی تجربہ کار سفارتکار کو امریکہ میں سفیر مقرر کرے گی۔ اٹھائیس جون کو جب علی جہانگیر صدیقی نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت ان کا تقرر کرنے والے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوچکے تھے۔ نگراں وزیر اعظم ناصر الملک سے پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس سیاسی تقرری کو منسوخ کر دیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق صرف علی جہانگیر صدیقی ہی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی سفارتکاروں کی جگہ بھی نئے لوگوں کو ذمہ داری دی جائے گی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے واضح کردیا ہے کہ علی جہانگیر سمیت جو بھی نان کیئریئر ڈپلومیٹ ہیں، نئی حکومت آنے کے بعد وہ مستعفی تصور ہوں گے۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق چونکہ ان سفارتکاروں کی تقرری سیاسی بنیادوں یا کسی دوسری وجہ سے سابق حکومت نے کی تھی، اس لئے اب یہ نئی حکومت کا اختیار ہوگا کہ وہ ان کی جگہ نئے افراد کا تقرر کرے۔ علی جہانگیر صدیقی نیب کو مطلوب ملزم ہیں۔ ان کے والد جہانگیر صدیقی نے شاہد خاقان عباسی کی ایئرلائن میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور یہ دونوں کاروباری شراکت دار ہیں۔ اسی وجہ سے شاہد خاقان نے اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل علی جہانگیر کو امریکہ میں سفیر مقرر کیا تھا، جس کی اہم قومی اداروں اور وزارت خارجہ نے مخالفت کی۔ ان ذرائع کے مطابق ان دنوں پاک امریکہ تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہیں اور دونوں ممالک میں سرد مہری موجود ہے۔ ان حالات میں کسی تجربہ کار سفارت کار کی شدید ضرورت تھی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ناتجربہ کار بزنس مین کو امریکہ میں سفیر لگادیا گیا، جس کے سبب کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد مزید کم ہوگئی۔ 22 جون کو علی جہانگیر نے امریکی صدر ٹرمپ کو اسناد سفارت پیش کی تھی۔ لیکن ذرائع کے بقول اس مختصر ملاقات میں بھی علی جہانگیر نے شاہد خاقان عباسی کی ہدایات کی روشنی میں نواز شریف کی سزا اور آئندہ سیاسی کردار کا معاملہ اٹھایا اور مسلم لیگی حکومت قائم ہونے کی صورت میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس ملاقات کے بعد وہ ایک بار نائب امریکی وزیر خارجہ سے ملے، جبکہ چند روز قبل ان کی امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میتھس سے ملاقات ہوئی۔ پی ٹی آئی کی سینیٹر ثمینہ سعید نے علی جہانگیر صدیقی کی تقرری کے موقع پر سینیٹ آف پاکستان میں تحریک پیش کی تھی اور اس اہم عہدے پر ناتجربہ شخص کی سیاسی تقرری کو قومی مفاد کے منافی قرار دیا تھا۔ اس موقع پر ان کی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن سینیٹر سعدیہ عباسی سے جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ سینیٹر ثمینہ عباسی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی جہانگیر نے امریکی عہدیداروں سے ملاقات میں بھی اور دیگر جو بھی فورم انہیں میسر آیا نواز شریف کی معافی کی بات کی اور ان کے اور ان کی جماعت کے آئندہ کے سیاسی کردار کی اہمیت اجاگر کرتے رہے۔ اس دوران پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت ملنے والی امداد میں نمایاں کمی ہوئی، لیکن علی جہانگیر کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ ایک سوال پر سینیٹر ثمینہ سعید نے کہا کہ ’’میں نے سینیٹ آف پاکستان میں جو نکات اٹھائے تھے، اس پر پارٹی کی جانب سے مجھے مکمل حمایت حاصل تھی۔ ہماری آنے والی نئی حکومت اس تقرری کو فوری طور پر ختم کر کے کسی تجربہ کار سفارت کار کو امریکہ میں یہ اہم ذمہ داری سونپے گی۔ ممکنہ طور پر ہماری حکومت خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں لائے گی‘‘۔
وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق گزشتہ دور حکومت میں ستائیس نان ڈپلومیٹک افراد یا منظور نظر لوگوں کو سفارتی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اس بارے میں سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا موقف تھا کہ حکومت اپنی مرضی سے بیس فیصد سفارتخانوں میں اپنے سفرا یا دیگر عہدیداروں کا تقرر کرسکتی ہے۔ لیکن سابق حکومت نے امریکہ جیسے اہم ملک میں بھی ناتجربہ کار علی جہانگیر کا تقرر کیا، جس پر قومی اداروں، وزارت خارجہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے بھی شدید تنقید کی تھی۔ دیگر جو تقرریاں کی گئیں، ان میں چین میں سعود خالد، سعودی عرب میں ایڈمرل (ر) ہاشم صدیق، کینیڈا میں ہائی کمشنر طارق عظیم (مشرف دور کے وزیر)، دبئی میں قونصل جنرل بریگیڈیئر (ر) جاوید حسن (نواز شریف کے سابق ایم ایس)، روس میں قاضی خلیل اللہ، مراکو میں نادر چوہدری (سابق چیئرمین پی ٹی اے)، سربیا میں عادل گیلانی، کیوبا میں تجزیہ نگار و نواز لیگ کے حامی کامران شفیع اور دیگر کئی افراد شامل ہیں۔ تین ریٹائرڈ جنرل سری لنکا، اردن اور نائیجیریا میں سفارت کار کے طور پر موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق علی جہانگیر نے اس دو ڈھائی ماہ کے عرصے میں پاکستان سے اپنے کاروباری دستوں کو امریکہ میں مدعو کیا اور ان کی اعلیٰ کاروباری شخصیات اور اہم امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں کرائیں، تاکہ کسی طرح وہ امریکی بزنس پارٹنرز کے ساتھ مل کر اپنے کاروبار کو فروغ دے سکیں۔ اس دوران ایک مرتبہ انہوں نے امریکہ میں موجود چاروں پاکستانی قونصل جنرلز اور کمرشل جنرلز کا اجلاس بھی بلایا، جس کو بظاہر امریکہ کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کا نام دیا گیا۔ لیکن اس کے اصل مقاصد اپنے اور اپنے گروپ کے کاروبار کو امریکہ میں فروغ دینے کے موقع تلاش کرنا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس کے دوران پاکستان سے علی جہانگیر کے کاروباری دوست اور پارٹنر بھی واشنگٹن میں موجود تھے، تاکہ وہ ان پاکستانی قونصلرز اور کمرشل قونصلر سے ذاتی حیثیت میں بھی کاروباری امور پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ ان ذرائع کے مطابق علی جہانگیر کا بطور سفارتکا دور اب تقریباً قصہ ماضی ہوچکا ہے، کیونکہ پی ٹی آئی ان کی تقرری پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ نگران حکومت سے بھی یہ تقرری منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی سمیت دیگر نان کیئریئر ڈپلومیٹس کے علاوہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو بھی اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کو اعتماد میں لئے بغیر بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کرکے اپنا مستقبل محفوظ کرنے کی ممکنہ طور پر کوشش کی ہے۔ ان کی یہ کوشش کتنی کامیاب رہی، اس کا جلد پتہ چل جائے گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے سفارتکاروں کی جگہ نئے افراد سفارتی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نان کیریئر ڈپلومیٹس کے بارے میں اپنے ادارے کا واضح موقف وہ گزشتہ روز ایک سوال کے جواب میں دے چکے ہیں۔ علی جہانگیر صدیقی بھی نان کیریئر ڈپلومیٹ ہیں۔ نئی حکومت آنے پر وہ بھی مستعفی تصور ہوں گے۔ نئی حکومت کو اختیار ہوگا کہ اس اہم عہدے پر وہ کس کا تقرر کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment