امت رپورٹ
عمران خان کی مالی امداد کے حوالے سے ایک نام کئی بار میڈیا کی زینت بنا ہے۔ اور وہ ہے برطانوی بزنس ٹائیکون انیل مسرت کا۔ ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی انیل کا ذکر کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ مفت خورے عمران کے گھر کا خرچہ اور ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے کئی بڑے سرمایہ دار رقوم مہیا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک انیل مسرت بھی ہیں۔ انیل مسرت 1970ء میں برطانوی شہر مانچسٹر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق لاہور سے تھا۔ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انیل نے مکانات خریدنے۔ سنوارنے اور مرمت کر کے بیچنے کا دھندا شروع کیا۔ وہ دس ہزار پائونڈ تک کے مکانات کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کلاسک ہومز کے نام سے ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنائی اور کام کو پھیلا لیا۔ تب انہوں نے مانچسٹر میں زیرتعلیم طلبا اور طالبات کی رہائش کے مسئلے کو فوکس کیا اور ’’اسٹوڈنٹس ویلیج‘‘ پراجیکٹ شروع کئے۔ 2013ء میں انیل کو بزنس مین آف دی ایئر کا برٹش مسلم ایوارڈ دیا گیا۔ 2006ء میں انہوں نے ایم سی آر پراپرٹی گروپ بنایا۔ جس کی مالیت اب ایک ہزار ملین برطانوی پائونڈ ہے۔ اس نے اپنا کام وسطی لندن تک پھیلا لیا ہے۔ انیل برطانیہ کے 446 نمبر کے امیر ترین آدمی ہیں۔ جبکہ برطانیہ میں 21 ویں امیر ترین ایشیائی بزنس مین ہیں۔ انیل مسرت، عمران کے ذاتی اخراجات کے علاوہ ان کی نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم اسپتال کو بھی مستقل فنڈز دیتے ہیں۔ 2017ء میں ان کی بیٹی کی شادی ہوئی۔ جس میں برطانوی مسلح افواج کے سربراہ جنرل نکولس پیٹرک المعروف ’’نک‘‘ نے بھی شرکت کی۔ اس شادی میں شرکت کے لیے عمران خان۔ شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی وغیرہ بھی لندن گئے تھے۔ انیل کا ایک اور شوق مسلح افواج کی ہائی کمان سے رابطے رکھنا ہے۔ ان افواج میں پاکستانی افواج بھی شامل ہے۔ اعلیٰ پاکستانی فوجی حکام سے انیل کی ملاقات کی تصویریں سوشل میڈیا پر چل چکی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد وہ ایک سویلین گاڈ فادر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ لو پروفائل میں رہنے والے انیل عمران حکومت کو ممکنہ مالی بحران سے نکالنے کے لیے اپنے بین الاقوامی رابطے استعمال کر رہے ہیں۔ چین اور دیگر یورپی ممالک کی اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام کے ساتھ اچھے رابطے ہیں۔ اور وہ ان رابطوں کو نئی حکومت کے حق میں استعمال کرنے پر آمادہ بھی ہیں۔ دارالحکومت کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے اس پراپرٹی ٹائیکون کی آمد پر عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت نے ان سے پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر کے منصوبے پر تفصیلی بات کی۔ انیل کی کمپنی اگرچہ بڑے منصوبے بنانے اور چلانے کا تجربہ رکھتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں اس کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہو گا۔ جہاں کام کرنے کے حالات برطانیہ اور یورپ سے بالکل مختلف ہیں۔ سرکاری مشینری کرپٹ ہے۔ اور کام میں مدد دینے کے بجائے روڑے اٹکانے میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر انیل عالمی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان رابطہ کار کے طور پر کام کریں گے تو ان کے لیے مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔ فی الحال تو انہوں نے نئی حکومت کو قرضوں کی ادائیگی میں مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان کا کردار بڑھتا جائے گا۔ مالی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے نئی ناتجربہ کار حکومت کا انحصار انیل جیسے رابطہ کاروں پر بڑھے گا۔ تو اس کے نتیجے میں نئی حکومت کو بعض ایسی فرمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جن کا تعلق قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے حساس گوشوں سے ہو۔ ذریعے کے بقول یوں سمجھیں کہ انیل، عمران خان کے ملک ریاض ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ملک ریاض کے رابطے پاکستان تک محدود ہیں۔ جبکہ انیل کے رابطے برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ملکوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ تعمیراتی صنعت میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عالمی روابط بھی عمران خان کے حق میں متحرک کر سکتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ عمران حکومت کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہ قیمت کیا ہو گی؟ کس کی قیمت پر ہو گی۔ اس باب میں راوی ابھی تک خاموش ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭