حضرت مولانا شاہ عبد الغفور عباسی مہاجر مدنیؒ کا فیض ایک جہاں میں پھیلا، مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کے شاگرد اور نقشبندی سلسلے کے بزرگ تھے، ابھی حال ہی میں ’’برکات غفوریہ‘‘ کے نام سے ان کی سوانح اور حالات پر مشتمل جناب سید حشمت علی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب چھپی ہے۔ سید حشمت علی صاحب حضرت تھانویؒ سے بیعت تھے۔ حضرت تھانویؒ کے وصال کے بعد 1946ء میں حضرت شاہ مدنیؒ سے وابستہ ہوئے اور تادم وفات خادم خاص رہے۔
سید صاحب نے اپنے شیخ کے مرض الوفات کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک رات مدینہ منورہ میں ایک عمارت کی چوتھی منزل کی چھت پر حسب عادت آرام فرما رہے تھے، ڈیڑھ دو بجے کے قریب گھنٹی بجی تو دونوں جاگ گئے، فرمایا: ’’دیکھ لیں، شاید کوئی مہمان ہے۔‘‘ سید صاحب کڑھتے دل کے ساتھ اترے، کنڈی کھولی تو ایک نووارد کھڑا تھا، پوچھنے پر اپنا نام بتایا اور کہنے لگا: ’’شیخ کے یہاں قیام کرنا ہے۔‘‘
آدھی رات بے آرام کرنے والے مہمان سے اس طرح خندہ پیشانی سے ملے کہ ماتھے پر ایک بل تک نہ تھا، شفقت سے پوچھا ’’آپ مجھے کیسے پہچانتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کسی آدمی کا حوالہ دیا، لطف یہ کہ حضرت ان صاحب سے بھی واقف نہ تھے، لیکن فرمانے لگے: ’’بہت اچھا کیا، یہاں آگئے۔‘‘ کھانے کا پوچھا تو فرشتہ صفت بھولے مہمان نے سچ سچ بتا دیا کہ: ’’جی! نہیں، کھانا تو نہیں کھایا‘‘۔ حضرت کمزوری اور بیماری کی سی حالت میں دوسری چھت پر گئے، بچوں کو جگایا اور مہمان کے لیے کھانا تیار کرنے کا کہا، گھر والے مہمانوں کے عادی تھے، تھوڑی ہی دیر میں گرم کھانا آگیا، مہمان کو اپنے سامنے کھانا کھلایا، پھر سید صاحب سے کہا کہ ’’ان کے لیے فلاں کمرے میں بستر کا انتظام کردیں۔‘‘
وہ مہمان کو سُلا کر آئے تو شیخ مہمان پر ترس کھا کر فرما رہے تھے کہ ’’گھر تلاش کرتے ہوئے معلوم نہیں بیچارے کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی، خدا کرے اسے نیند آجائے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭