شہزادے نے غلامی اختیار کرلی

مولانا رومیؒ بہت بڑے ممتاز عالم دین، ولی کامل اور اپنی صدی کے عظیم آدمی گزرے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کو معرفت کا بڑا حصہ فرمایا تھا۔ آپ چھ ربیع الاول 604ھ بلخ کے شہر میں ایک بزرگ محمد بہاؤ الدینؒ کے گھر پیدا ہوئے۔
یاد رہے کہ بلخ جو کسی زمانے میں عالم اسلام کا مرکز علم و سیاست تھا۔ کسی وقت اس شہر میں ایک ہزار دینی دارالعلوم، بارہ سو جامع مسجدیں اور بارہ سو حمام آباد تھے۔ مولانا رومی کے آباؤ اجداد اسی بلخ کے رہنے والے تھے۔ مولانا رومیؒ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اولاد میں سے تھے۔ سلطان محمد خوارزم شاہ کے حقیقی نواسے تھے۔ خوارزم شاہ، براعظم ایشیاء کا سب سے زیادہ طاقتور اور زبردست مسلمان بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ہلاکو خان کا دادا چنگیز خان (612ھ تا 663ھ) بادشاہ بھی اس سے خائف تھا۔
مولانا رومیؒ چھ سال کی عمر میں جب اپنے والد صاحب کے ساتھ بابا شیخ فرید الدین عطارؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت شیخ عطارؒ نے آپؒ کو اپنی مثنوی ’’اسرار نامہ‘‘ تبرکاً ہدیہ دیا اور آپ کے والد صاحب سے فرمایا کہ یہ لڑکا ایک دن غلغلہ و شہرت بلند کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ بزرگان دین نور ایمان کی روشنی سے دور تک دیکھتے تھے۔ چند سال بعد مولانا نے تکمیل علوم کے لئے ملک شام کا سفر فرمایا اور پھر سات سال دمشق میں تحصیل علوم فنون کرتے رہے۔ تمام مذاہب سے واقف تھے۔ علم کلام، علم فقہ اور اخلاقیات میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔ فلسفہ و حکمت و تصوف میں ان کی کوئی نظیر نہ تھا۔ آپ تحصیل علوم کے بعد پھر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔
ادھر حضرت شمس تبریزؒ نے دعا فرمائی کہ خدایا! مجھے ایسا بندہ عطا فرمایئے، جو میری آتش محبت اور صحبت کا متحمل ہو سکے اور اس آتش حقیقی کی امانت اس کے سپرد کروں۔ چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور الہام ہوا کہ روم جاؤ، آپ اسی وقت چل کھڑے ہوئے۔ مولانا روم پر جس وقت شمس تبریزؒ کی نگاہ پڑی تو آپ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ جس کو مولانا نے اپنی غزل میں اس انداز میں بیان فرمایا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے۔ میں اکیلا ہی اس محبت حق کے میخانے (خدا کی محبت کا شراب خانہ) کا مست نہیں ہوں۔ بلکہ اس مے سے مجھ جیسے بہت سے مست ہیں۔ اس شراب محبت حق کا گھونٹ پاک، پاک بندوں نے نوش کیا ہے۔ حضرت جنیدؒ و شبلیؒ و عطارؒ سب کے سب مست ہوگئے۔ جب مجھ پر حضرت شمس تبریزؒ نے نظر ڈالی تو یہ ملا رومی بر سر بازار مست ہوگئے۔
اس کے بعد مولانا رومیؒ اپنے پیرو مرشد حضرت تبریزؒ کی صحبت میں رہ کر سلوک (تلاش حق کا راستہ) کے منازل طے کرنے میں مشغول ہوگئے اور (وقتی طور پر) درس و تدریس وعظ کے اشغال چھوڑ دیئے۔ اپنے پیر سے دم بھر کی جدائی کا تحمل نہ پاتے تھے۔ عجیب والہانہ تعلق حضرت تبریزؒ سے پیدا ہوگیا، غور فرمائیں، کہاں ایک عظیم بادشاہ کے نواسے تھے۔ خدم و حشم ہر وقت موجود رہتے تھے۔ عمامہ اور شاہی جبہ کے ساتھ پالکی پر چلتے تھے اور سینکڑوں شاگرد آپ کی جوتی سیدھی کیا کرتے تھے اور ایک عالمانہ اور شاہانہ آپ کی شان تھی اور اپنے پیرو مرشد کی محبت میں پیر کے پیچھے پیچھے، پیر کا سامان بستر، گدڑی، چکی، پیالہ، لوٹا مصلیٰ اور غلہ وغیرہ سر پر رکھے ہوئے پھرنے لگے۔
مولانا رومیؒ نے اسی غلامی کو بڑے فخر سے اس شعر میں بیان فرمایا:
مولوی ہرگز نشد مولائے روم
تاغلام شمس تبریزی نشد
ترجمہ: مولوی ہر گز نہ ہوسکا مولائے روم، جب تک شمس تبریز کا غلام نہ ہوا۔ مثنوی شریف میں جہاں حضرت تبریزؒ کا یا پیر کا لفظ آگیا ہے۔ مولانا پر ایک حالت طاری ہوگئی اور صفحات در صفحات اشعار پیر و مرشد کی محبت میں فرمانے لگے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment