حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ کے پاس سے ایک آدمی گزرا، صحابہ کرامؓ نے دیکھا کہ وہ رزق کے حصول میں بہت متحرک ہے۔ رسول اقدسؐ سے عرض کیا گیا: حضور! اگر اس کی یہ دوڑ دھوپ اور دلچسپی خدا کی راہ میں ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔
اس پر آں حضرتؐ نے فرمایا: اگر وہ اپنے بچوں کی پرورش کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے تو یہ خدا کی راہ ہی میں شمار ہوگی، اگر وہ اپنے بوڑھے والدین کی پرورش کے لیے کوشش کر رہا ہے تو یہ بھی راہ خدا میں ہی شمار ہوگی، اگر اپنی ذات کے لیے کوشش کر رہا ہے اور مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچا رہے تو یہ کوشش بھی راہ خدا میں ہی شمار ہوگی۔
البتہ اگر اس کی یہ محنت زیادہ مال حاصل کر کے لوگوں پر برتری جتانے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے ہے تو یہ ساری محنت شیطان کی راہ میں شمار ہوگی۔ (زاد راہ صفحہ نمبر 80)
حقیقی خائف!
حضرت اسحٰق بن خلفؒ فرماتے ہیں: خائف وہ نہیں جو رو کر اپنی آنکھوں کو پونچھ ڈالے اور پھر گناہ کا مرتکب ہو، بلکہ حقیقی خائف وہ ہے، جو خوف الٰہی سے گناہ ترک کر دے۔ حضرت حاتم اصمؒ فرماتے ہیں، جب تم کسی دوست کا حال دریافت کرو اور وہ کہے میں فلاں چیز کا محتاج ہوں اور تم اس سے تغافل کرو اور اس کی ضرورت پوری نہ کرو تو اس کا حال دریافت کرنا اس کے ساتھ تمسخر ہوگا۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اگر انسان کے سر پر اخلاص، مرض اور موت نہ ہوتی تو شدت کبر کے سوا وہ کبھی سر تسلیم خم نہ کرتا، باوجود ان کے وہ پھر گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
حضرت سفیان بن عیینہؒ سے ایک آدمی نے کہا کہ میں ایسا آدمی دیکھنا چاہتا ہوں کہ جو دنیا سے بے رغبت ہو۔ انہوں نے فرمایا: یہ گم شدہ چیز ہے، جس کا اس زمانے میں وجود نہیں، کیوں کہ حقیقی زہد حلال میں ہے اور اب حلال کہاں ہے کہ انسان زاہد بن سکے۔ (مخزن اخلاق صفحہ نمبر 167,166)
حسن اخلاق اور حلم!
حضرت معروف کرخیؒ ایک دن طہارت کے لیے دریائے دجلہ پر تشریف لے گئے، آپؒ نے اپنا مصلیٰ اور قرآن پاک قریبی مسجد میں رکھا اور خود طہارت میں مشغول ہوگئے۔
اتنے میں ایک بڑھیا آئی اور مصلیٰ اور قرآن بغل میں دبا کر چلتی بنی۔ حضرتؒ نے اسے دیکھ لیا اور پیچھا کیا۔ جب اس کے قریب پہنچے تو سر جھکا کر نہایت نرمی سے پوچھا: محترمہ! کیا قرآن پڑھنے والا تیرا کوئی لڑکا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؒ نے فرمایا تو پھر قرآن مجید مجھے دیدے اور مصلیٰ تو رکھ لے، یہ میں اپنی خوشی سے تجھے بخشتا ہوں۔
بڑھیا مارے شرم کے پانی پانی ہوگئی اور دونوں چیزیں آپؒ کو واپس دیدیں۔ آپؒ نے پھر زور دے کر کہا کہ مصلیٰ تو اپنے پاس ہی رکھ اور صرف قرآن مجید مجھے دیدے۔ لیکن بڑھیا اپنی نازیبا حرکت کے مقابلے میں آپؒ کا حسن اخلاق اور حلم دیکھ کر اس قدر شرمندہ تھی کہ دونوں چیزیں آپؒ کے پاس چھوڑ کر روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ (مخزن)
٭٭٭٭٭