معارف القرآن

معارف و مسائل
وَمَا یَنْطِقُ… الخ: یعنی رسول اقدسؐ اپنی طرف سے باتیں بنا کر خدا کی طرف منسوب کریں، اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں، بلکہ آپؐ جو کچھ فرماتے ہیں، وہ سب حق تعالیٰ کی طرف سے وحی کیا ہوا ہوتا ہے، وحی کی بہت سی اقسام احادیث بخاری سے ثابت ہیں، ان میں ایک قسم وہ ہے جس کے معنی اور الفاظ سب حق تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، جس کا نام قرآن ہے، دوسری وہ کہ صرف معنی حق تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، آنحضرتؐ اس معنی کو اپنے الفاظ میں ادا فرماتے ہیں، اس کا نام حدیث اور سنت ہے، پھر حدیث میں جو مضمون حق تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے، کبھی وہ کسی معاملے کا صاف اور واضح فیصلہ اور حکم ہوتا ہے، کبھی کوئی قاعدہ کلیہ بتلایا جاتا ہے، جس سے احکام رسول اکرمؐ اپنے اجتہاد سے نکالتے اور بیان کرتے ہیں، اس اجتہاد میں اس کا امکان رہتا ہے کہ کوئی غلطی ہو جائے، مگر رسول اکرمؐ اور تمام انبیائے کرامؑ کی یہ خصوصیت ہے کہ جو احکام وہ اپنے اجتہاد سے بیان فرماتے ہیں، ان میں اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اس کی اصلاح کر دی جاتی ہے، وہ اپنے غلط اجتہاد پر قائم نہیں رہ سکتے، بخلاف دوسرے علمائے مجتہدین کے کہ ان سے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو وہ اس پر قائم رہ سکتے ہیں اور ان کی یہ خطا بھی خدا کے ہاں صرف معاف ہی نہیں، بلکہ دین کے سمجھنے میں جو اپنی پوری توانائی وہ خوچ کرتے ہیں، اس پر بھی ان کو ایک ثواب ملتا ہے۔ (کما فی الاحادیث الصحیحۃ المعروفۃ)
اس تقریر سے آیت مذکورہ پر اس شبہ کا جواب بھی ہوگیا کہ جب رسول اقدسؐ جو کچھ فرماتے ہیں، وہ سب وحی ہوتا ہے، تو اس سے لازم آتا ہے کہ آپؐ اپنی رائے اور اجتہاد سے کچھ نہیں فرماتے، حالانکہ احادیث صحیحہ میں متعدد واقعات ایسے مذکور ہیں کہ شروع میں آپؐ نے کوئی حکم دیا، پھر بذریعہ وحی اس کو بدلا گیا، جو علامت اس کی ہے کہ یہ حکم خدا کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ آپؐ کی رائے اور اجتہاد سے تھا، بعض اوقات وحی کسی قاعدہ کلیہ کی شکل میں آتی ہے، جس سے احکام کا استخراج کرنے میں پیغمبر کو اپنی رائے سے اجتہاد کرنا پڑتا ہے، چونکہ یہ قاعدہ کلیہ خدا کی طرف سے آیا ہے، اس لئے ان سب احکام کو بھی وحی الٰہی کہا گیا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment