عابدزاہد، عالم، فقیہ، محدث سیدنا ابن المبارکؒ تجارت کیا کرتے تھے۔ رب تعالیٰ نے ان کے مال میں بہت برکت عطا کر رکھی تھی۔ یہ اکثر وبیشتر حج کے لیے جاتے رہتے تھے۔ آپ جب حج کے سفر کا ارادہ کرتے تو ’’مرو‘‘ شہر میں رہنے والے ان کے رشتہ دار اور دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے درخواست کرتے : شیخ محترم! ہمیں بھی اپنے قافلے میں شامل کرلیجیے، ہم آپ کی رفاقت میں حج کرنا چاہتے ہیں۔ ابن مبارکؒ فرماتے: اپنا اپنا زاد راہ لاؤ۔ وہ سب راستے کا خرچ لاتے تو وہ ان سے یہ رقم لے کر ایک صندوق میں بند کرکے رکھ لیتے اور صندوق کو تالا لگا دیتے۔
اب ابن مبارکؒ تمام ساتھیوں اور اہل قافلہ کو لے کرمرو سے بغداد کی طرف چلتے اور تمام ساتھیوں پر اپنی جیب سے خرچ کرنا شروع کردیتے۔ راستے بھر انہیں بہترین اور عمدہ کھانے کھلاتے۔ بغداد پہنچ کر سب کے لیے بہترین کپڑے خریدتے اور انہیں خوبصورت لباسوں میں ملبوس کرتے۔ اس طرح یہ پورا گروپ نہایت شاندار وباوقار ہیئت کے ساتھ بغداد سے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوتا۔ مدینہ پہنچ کر تما م اہل قافلہ سے پوچھتے: آپ کے گھر والوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مدینہ طیبہ سے کیا خرید کر لانے کو کہا تھا؟
سب لوگ اپنے اپنے گھر والوں کی فرمائش بتاتے ۔ وہ ہر ایک کے لیے اس کی طلب کے مطابق اشیاء خرید لیتے۔ پھر سارے قافلے کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچتے اور جب وہ حج کرکے فارغ ہو جاتے تو تمام ساتھیوں سے پوچھتے: آپ کے گھر والوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مکہ مکرمہ کی اشیاء میں سے کیاکچھ خرید کر لانے کا کہا تھا؟ہر کوئی اپنے اپنے گھر والوں کی ضروریات بتاتا۔ وہ ہر ایک کو اس کی پسند کی چیز لے کر دے دیتے۔ پھر ان سب کو لے کر مکہ مکرمہ سے نکلتے اور واپسی کا سفر مرو کی طرف شروع ہو جاتا۔ راستے بھر ان پر اپنی جیب سے خرچ کرتے، یہاں تک سب لوگ مرو پہنچ جاتے۔
ابن المبارکؒ ان سب کے گھروں میں سفیدی کروا دیتے اور ان کے دروازے بھی رنگین کروا دیتے۔ تین دن گزرتے تو ان تمام ساتھیوں کو ایک شاندار دعوت پر بلاتے۔ انہیں بہترین کھانا کھلاتے، پھر ان میں ہر ایک کو خوبصورت کپڑوں کاایک جوڑا عنایت فرماتے۔ پھر وہ صندوق منگواتے، جس میں ان کی رقوم رکھی ہوئی ہوتیں۔ ہر شخص کی رقم ایک تھیلی میں بند ہوتی، جس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ہر شخص کو اس کی پوری رقم واپس مل جاتی کیونکہ حج کا سارا خرچ ابن مبارکؒ اپنی جیب سے کرتے۔ آپؒ کی فیاضی اور کرم کے کیا کہنے ! تاریخ اسلامی نے ایسی ایسی شخصیات بھی دیکھی ہیں۔
یہ مبارک شخصیت مبارک ماہ میں مبارک شہر مکہ میں مبارک پانی زم زم کی طرف جاتے تو حق تعالی کی طرف متوجہ ہو کر ایک دعا کرتے۔ عرض کرتے:
میرے رب!تیرے رسول کریمؐ نے فرمایا تھا: (مَائُ زَمْ زَمَ لِمَا شُرِبَ لَہُ) یعنی آب زم زم کو جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ مقصد خدا تعالیٰ پورا کر دیتا ہے۔ خدایا! میں یہ پانی اس نیت سے پی رہا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیاس کو اس پانی کی برکت سے بجھا دینا۔
علی بن فضیلؒ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں حج کے لیے گیا۔ جب مسجد حرام شریف میں داخل ہوا اور طواف شروع کیا تو دیکھا کہ سیدنا سفیان ثوریؒ کعبہ کے پاس سجدہ میں پڑے ہوئے تھے۔ میں ایک طواف ختم کرکے اسی جگہ پہنچا تو سفیانؒ اسی طرح سجدے میں تھے۔ انہوں نے دوسرا، تیسرا … حتیٰ کہ ساتوں طواف مکمل کر لیے، مگر سفیانؒ اسی طرح سجدہ میں پڑے رہے۔ انہوں نے سر نہیں اٹھایا۔ وہ لوگ اتنے اتنے لمبے سجدے اس لیے کرتے تھے کہ اس عظمت والے گھر میں رحمت الٰہی ان کی طرف متوجہ ہو جائے اور ان کی مغفرت کا سامان ہو جائے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭