اصفہان کے عوام نے امیرتیمور کا ڈٹ کر مقابلہ کیا

اصفہان کی ایک اور تاریخی وجہ شہرت بھی ہے۔ 1377ء (779ھ) میں امیر تیمور نے اس شہر کا تاریخ کا نہایت طویل اور ظالم ترین محاصرہ کیا اور اس کے بعد بے گناہ شہریوں کا بلا تفریق مرد و زن قتل عام کیا۔ مگر بھوکے، پیاسے اور نہتے لیکن غیور اصفہانیوں نے ثابت کیا کہ وہ تیمور کے فوجیوں سے زیادہ بہادر اور زیادہ قوت برداشت رکھنے والے ہیں۔ طویل عرصے سے محصور ہونے اور درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوجانے والے شہریوں نے تیمور کے ہزاروں فوجیوں کو تلواروں، ڈنڈوں، پتھروں اور گرم تیل سے مار ڈالا۔ تیمور کے بہت سے فوجیوں پر تو انہوں نے اور ان کی عورتوں نے پہلے تیل چھڑکا اور پھر ان کو آگ لگا کر چلتی پھرتی مشعلیں بنادیا۔ اس پر تیمور اور زیادہ طیش میں آیا اور اسلامی شریعت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے قتل عام کا بھی حکم دیدیا۔ آیئے اصفہان کے محاصرے اور قتل عام کی روداد اسی شخص کی زبانی سنتے ہیں:…
’’مورخہ 15 جمادی الاول 780ھ سورج طلوع ہونے سے پہلے اصفہان پر ہمارا عظیم حملہ شروع ہوگیا۔ میں نے ان سپاہیوں کو، جنہیں دو طرف سے شہر میں داخل ہونا تھا، خبردار کیا کہ اب تمہیں واپس نہیں آنا اور اگر لوٹ کر آئے تو میرے ہاتھوں ملک عدم روانہ کر دیئے جاؤ گے۔ میں تمہیں صرف اس شرط پر واپس آنے کی اجازت دیتا ہوں کہ اصفہان فتح ہو چکا ہو۔ میں نے انہیں حکم دیا کہ کسی پر رحم نہ کیا جائے۔ جو بھی مزاحمت کرے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ خواہ ایک بچہ کیوں نہ ہو۔ شہر فتح ہونے کے بعد میں زندہ بچ جانے والوں کے بارے میں فیصلہ کروں گا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ میرے سپاہی جانتے تھے کہ اصفہان فتح ہونے کی صورت میں وہ مال دار ہوجائیں گے، کیونکہ اہل شہر کی دولت ان کی مٹھی میں آجائے گی۔ میں نے سنا تھا کہ ایران کی حسین ترین عورتیں اصفہان کی عورتیں ہیں، لہٰذا میں نے سپاہیوں کو خوشخبری دی کہ فتح اصفہان کے بعد لوگ وہاں کی جوان اور خوبصورت عورتوں کے مالک بن جائیں گے۔
جب میرے سپاہیوں نے حملہ شروع کیا تو میں حسب معمول شہر سے باہر کھڑا رہا۔ اس لئے نہیں کہ مجھے کسی کا خوف تھا بلکہ فوج کا نظم و نسق چلانے اور سپاہیوں کی نگرانی کرنے کی خاطر۔ مجھے احساس تھا کہ اگر میں مکمل فتح حاصل کرنے سے پہلے مارا گیا تو سپاہیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور وہ دل جمعی سے نہ لڑ سکیں گے۔ گو کہ میرے بعد میرے بیٹے میدان جنگ کی کمان سنبھال لیتے، لیکن وہ جوان تھے اور انہیں میری طرح سپاہیوں اور افسروں کی پہچان نہیں تھی۔ بہرحال میرے سپاہی تلواروں، نیزوں اور گرزوں سے مسلح ہوکر دو طرف سے شہر میں داخل ہوگئے۔ میں جانتا تھا کہ ایک شہر کو تصرف کرنے کے لئے پیادہ سپاہی سوار سپاہیوں سے زیادہ کار آمد ہوتے ہیں، کیونکہ شہر کے گلی کوچے سوار فوج کی حرکت میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور وہ اپنا کام مؤثر طور پر انجام نہیں دے سکتے۔ اسی لئے سوار فوج کو صاف اور ہموار جگہوں پر استعمال کرنا ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ پھر بھی میں بالکل تیار تھا کہ وسیع گزر گاہوں یا میدانوں میں ہمارے سامنے مزاحمت ہو تو میں فاضل فوج کے سوار سپاہی بھیج کر مزاحمت کاروں اور پائداری کے اڈے نابود کردوں۔
اصفہان کی دیوار ساڑھے سات فرسنگ لمبی تھی اور اس پر تین سو برجیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔ دیوار کے پیچھے جنگی ٹھیلوں کی آمدو رفت کے لئے عریض گزر گاہ بھی موجود تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ دیوار کب تعمیر ہوئی، لیکن متعدد بار اس کی مرمت ہوچکی تھی۔ نزدیکی قصبے سدہ کے امام جماعت نے مجھے بتایا کہ اصفہان کی دیوار حضرت نوحؑ نے بنوائی تھی اور یہ اتنی مستحکم ہے کہ طوفان بھی اسے نہ ڈھا سکا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حضرت نوحؑ نے اپنی کشتی اصفہان ہی میں بنائی اور طوفان آنے کے بعد وہاں سے چلے تھے۔ البتہ مجھے احساس تھا کہ ایسی مضبوط دیوار کو حتیٰ کہ بارود کے ذریعے اڑانا بھی انتہائی دشوار کام ہے، لیکن شہر پر قبضہ کرنے کے لئے ہم اسے ڈھانے پر مجبور تھے۔ جب میرے سپاہی اصفہان میں داخل ہوئے تو وہاں ایک گھوڑا، خچر حتیٰ کہ ایک کتا موجود نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ اصفہان کے باشندے فرط بھوک سے شہر کے سارے جانور کھا گئے ہیں۔
اس دن اہل اصفہان کی گرسنگی نے ہماری بہت مدد کی اور اگر وہ لوگ بھوکے نہ ہوتے تو اتنی آسانی سے مغلوبب نہ ہوتے۔ انہوں نے طویل محاصرے کے دوران ثابت کر دیا تھا کہ شدید مزاحمت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس دن جب سورج طلوع ہوا تو تھوڑی دیر کے بعد آسمان پر بادل چھا گئے اور دوپہر ہوتے ہوتے موسم خزاں کی پہلی بارش ہوگئی۔ گوکہ پانی کا برسنا ہمیں پریشان کر رہا تھا لیکن ہم نے لڑائی سے ہاتھ نہیں کھینچے۔ دوسری طرف اہل اصفہان شدید بھوک کا شکار ہونے کے باوجود سخت مزاحمت کر رہے تھے، حتیٰ کہ ان کی عورتیں اور بوڑھے مرد بھی ان کا برابر ساتھ دے رہے تھے اور جو کچھ ان کے ہاتھ لگتا تو اس کا ڈھیر بنا کر گلی کوچوں میں ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے۔ دوپہر تک بارش شروع ہونے سے پہلے اصفہان کے مختلف علاقوں سے دھویں کے مرغولے اٹھ رہے تھے اور میں سمجھ گیا کہ اصفہانی ہمارا مقابلہ کرنے کے لئے آگ اور دھویں کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ لیکن بارش شروع ہوئی تو آگ بجھ گئی اور ان کا یہ حربہ بھی زائل ہوگیا۔ دوسری طرف نہ صرف میرے ان سپاہیوں کا کام مختل ہوا، جو دیوار کو بارود کے ذریعے اڑانے کی کوشش کررہے تھے بلکہ باردو بھی بھیگ گیا اور بھیگا ہوا بارود ہر گز نہیں پھٹتا! اس کے باوجود ہم لوگ عصر کے وقت دیوار کے بعض حصوں کو ڈھانے میں کامیاب ہوگئے اور فوج کے مزید دستے شہر میں اتر گئے۔ البتہ سوار سپاہی شہر سے باہر بارش میں کھڑے میرے حکم کے منتظر تھے۔ لیکن شہر کی صورت حال کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ میں انہیں استعمال نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا انہیں پیدل ہی شہر میں داخل ہونا تھا۔ چتن کے سپاہی، شہر میں داخل ہونے والے دستے میں شامل تھے۔ ان کا سردار ’اورگن چتن‘ بھی ان کے ساتھ شہر میں داخل ہوا تھا۔ چتن کے بہت سے سپاہی داخل ہوتے ہی مارے گئے اور شام کے وقت مجھے اطلاع ملی کہ اور گن چتن بھی موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ جب اس کی لاش میرے سامنے لائی گئی تو معلوم ہوا کہ اصفہانیوں نے اس کا سرکاٹ کر نیزے پر چڑھا دیا ہے۔ ’اورگن چتن‘ کی تلوار بھی نہ مل سکی، لیکن اس کے بدن پر زرہ اور پیروں پر آہنی زانو بند بدستور بندھے ہوئے تھے۔ میں نے حکم دیا کہ اس کی ذاتی چیزیں محفوظ کرلی جائیں، تاکہ ماوراء النہر میں اس کے لواحقین کو دی جاسکیں۔ پھر جنارزے کو دفنانے کا حکم دیا، چونکہ مجھے احساس ہو چلا تھا کہ اس کا سر دستیاب نہیں ہوگا۔
موسم خزاں کا مختصر دن رفتہ رفتہ شام کے سایوں میں ڈوب رہا تھا۔ چونکہ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے لہٰذا وقت سے پہلے سیاہی پھیل گئی۔ میں نے فاضل فوج کے پچیس ہزار سپاہیوں کو شہر میں داخل کردیا، تاکہ رات کے پھیلنے سے پہلے پہلے لڑائی کا کام تمام ہو جائے۔ لیکن لڑائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اصفہان کا پورا شہر سینکڑوں جنگی میدانوں میں بٹ چکا تھا۔ اصفہانیوں کی طرف سے پھیلائی گئی رکاوٹیں قدم قدم پر میرے سپاہیوں کے لئے مشکلات کھڑی کر رہی تھیں۔ میں بذات خود شہر سے باہر کھڑا جنگ کی نگرانی کر رہا تھا، لیکن بارش شروع ہونے کے بعد اپنے خیمے میں چلا آیا۔ وہاں ایک سردار غولر بیگ میرے حضور پیش ہوا اور جنگ کی صورت حال کے بارے میں گزارش دیتے ہوئے گویا ہوا: ’’اے امیر! آج رات لڑائی ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ بارش اور گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہمارا کام دشوار کردیا ہے۔ آیا اجازت ہے کہ ہم رات کو لڑائی سے ہاتھ کھینچ لیں اور صبح ہوتے ہی دوبارہ حملہ کردیں‘‘۔
میں نے جواب دیا: ’’غولر بیگ! ایسے دشمن کے سامنے متارکہ جنگ کرنا، جس میں دفاع کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے، سراسر غلطی ہوگی۔ اصفہان کے باشندے فی الوقت بھوکے ہیں اور بھوک کے مارے ان کی جان پر بنی ہوئی ہے اور اس کے باوجود سختی سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ طویل محاصرے کے دوران بھی انہوں نے اپنی بہادری کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ وہ لوگ ہمارے دبدبے اور جنگی شہرت کو خاطر میں نہ لائے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہم سے قطعی خوف زدہ نہیں۔ لہٰذا اگر لڑائی روک دی گئی تو ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے شب خون کا نشانہ بن جائیں۔ اگر یہ بھوک کے مارے، جان ہتھیلی پر رکھے لوگ رات کی تاریکی میں ہم پر حملہ آور ہوگئے تو اس طرح موسلادھار بارش میں جنگ کی صورت حال ہمارے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
غولر بیگ بولا: ’’اے امیر! میں نے اس لیے عارضی طور پر جنگ ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ اگلے دن ہم لوگ منظم طریقے سے اصفہان کے سارے گھروں کو ویران کرنے کا منصوبہ بنا سکیں۔ چونکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جب تک شہر میں ایک عمارت بھی باقی ہے تو یہ شہر فتح نہیں ہو سکتا اور یہ کام رات کی تاریکی اور موسلادھار بارش تلے نہیں انجام پا سکتا۔ لیکن کل صبح ہم لوگ گھروں کو ڈھانے کا کام شروع کر دیں گے تاکہ اصفہان کے باشندے ان میں پناہ لے کر مزاحمت نہ کریں یا ان کی چھتوں سے ہمارے سروں پر پتھر نہ برسائیں یا ہمیں پکڑ کر زندہ نہ جلا ڈالیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment