چھریوں بغدوں کا بزنس 14کروڑ روپے تک ہونے کی توقع

اقبال اعوان
کراچی میں جانوروں کے ذبیحے اور گوشت بنانے کیلئے استعمال ہونے والی چھریوں، بغدوں اور مڈیوں، چٹائیوں کا بزنس اس بار بھی 14 کروڑ روپے سے زائد متوقع ہے۔ تاہم ابھی مارکیٹوں اور اسٹالز پر خریداروں کا رش شروع نہیں ہوا ہے۔ مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ یوم آزادی کے فوری بعد شہری ان اشیا کی خریداری کریں گے۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ خام لوہا مارکیٹ میں مہنگا ہوا ہے۔ گزشتہ سال 72 ہزار روپے ٹن والا خام لوہا اب 98 ہزار روپے ٹن مل رہا ہے جس کی وجہ سے چھری، چاقو اور بغدے اس بار 30 فیصد مہنگے فروخت ہوں گے۔ جبکہ چائنا سے منگوائی جانے والی مخلف اقسام کی چھریاں اور ٹوکے اس بار نہیں منگوائے گئے ہیں کہ شہریوں نے شکایت کی تھی کہ وہ انتہائی ناقص میٹریل کے بنے ہوتے ہیں۔ اس بار سو فیصد اوزار کراچی اور پنجاب کے شہر وزیرآباد کے تیار کردہ ہیں۔ جبکہ لکڑی مہنگی ہونے پر مڈیوں کے ریٹ بھی گزشتہ سال سے 20 فیصد مہنگے ہیں۔ جبکہ چھریوں، ٹوکوں (بغدوں) پر دھار لگانے والوں نے اجرت دوگنی کر دی۔
اولڈ سٹی ایریا میں واقع لوہے کی اشیا کی ہول سیل مارکیٹ کے صدر عبدالستار مغل کا ’’امت‘‘ سے باتا کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’یہ مارکیٹ 68 سال سے قائم ہے۔ یہاں پر بننے والی چھریاں، ٹوکے، چاپڑ اور دیگر اوزار ملک بھر میں بھیجے جاتے ہیں۔ 5 سال قبل چائنا کی اشیا مارکیٹ میں آنے لگیں تھیں۔ رنگ برنگی دستوں والی چھریوں کے ریٹ بھی کم تھے۔ لیکن وہ ناقص ثابت ہوئیں کہ ذرا سے دبائو پر ہی ٹیڑھی ہوجاتی تھیں۔ ٹوکے بھی جلدی خراب ہوتے تھے۔ چھریاں ٹیڑھی ہونے اور ٹوٹنے کی شکایت کے بعد شہریوں نے چائنا آئٹمز کو مسترد کردیا۔ گزشتہ سال 15 فیصد سامان چائنا سے منگوایا گیا، جو شہریوں نے نہیں خریدا۔ اب 65 فیصد سامان پنجاب کے شہر وزیرآباد سے آتا ہے اور 35 فیصد اس مرکزی مارکیٹ میں تیار ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں اس بار اشیا 30 فیصد مہنگی فروخت ہو رہی ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور دیگر اخراجات بڑھنے پر خام لوہا جو 72 ہزار روپے ٹن آتا تھا اب 98 ہزار روپے میں مل رہا ہے۔ دکانداروں کے اخراجات بھی بڑھے ہیں۔ بجلی، تیل اور ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’قربانی کے دوران جو اوزار استعمال ہوتے ہیں ان میں جانور ذبح کرنے والی چھری اگر وزیرآباد کی ہو تو بارہ سو روپے تک پڑے گی۔ ورنہ لوکل لوہے کی عام چھری 200 سے 250 روپے تک مل جائے گی۔ کراچی کی تیار کردہ ریتی (ہارڈ دھات) والی چھری چاہیے تو اس کی قیمت 1700 روپے ہے جو کئی سال چلے گی۔ 70 فیصد شہری اور قصائی ہر بقر عید پر نئی چھریاں اور ٹوکے خریدتے ہیں۔ باقی 30 فیصد پرانی چھریاں اور بغدے تیز کراتے ہیں۔‘‘ دکاندار عمران کا کہنا تھا کہ ’’کھال اتارنے والی وزیرآباد کی اسٹیل والی چھوٹی چھری ایک ہزار روپے تک کی ہے۔ جبکہ کراچی میں تیار کردہ ریتی والی لیں گے تو 600 سے 800 روپے تک ملے گی۔ گوشت کاٹنے والی عام چھری بھی 160 سے ساڑھے تین سو تک مل رہی ہے جو اسٹیل، لوہے اور دیگر مٹیریل کی بنی ہے۔ زیادہ تر یہ چھریاں وزیرآباد سے آتی ہیں۔ جبکہ بغدہ (ٹوکا) وزن اور معیار کے مطابق 600 سے ہزار روپے تک مل جاتا ہے۔ اس کا وزن ایک کلو سے ڈھائی کلو تک ہوتا ہے۔ اسے شیرشاہ کباڑی مارکیٹ سے بڑی گاڑیوں کی پرانی کمانی لا کر بنایا جاتا ہے۔ قصاب تین کلو سے بھی زیادہ وزنی بنواتے ہیں اور ہڈیوں کو توڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ چاپڑ (کلہاڑے کی شکل کا ہوتا ہے) یہ سیالکوٹ سے بن کر آتا ہے اور یہ دو کلو وزنی ہوتا ہے۔ یہ ریلوے پٹری سے بنایا جاتا ہے اور 600 سے 1700 روپے کا مل رہا ہے۔ چھریاں، چاقو اور بغدے تیز کرنے کیلئے ایک پتھر آتا ہے جو کاربن اسٹون کہلاتا ہے۔ جبکہ انڈین اینٹ بھی آتی ہے جو 15 کلو وزنی ہوتی ہے اور 80 روپے سے ساڑھے تین سو روپے کی ملتی ہے۔ اسٹیل یا لوہے کی سلاخ جو چھریوں سے چکنائی ہٹانے کے کام آتی ہے، 80 روپے سے ڈھائی سو روپے میں ملتی ہے۔ اونٹ نحر کرنے والا تلوار نما چھرا جس کی دونوں جانب دھار ہوتی ہے اور آگے پتلی نوک ہوتی ہے، یہ اسٹیل اور کمانی سے بنائے جاتے ہیں۔ وزیرآباد میں اسٹیل والا اور کراچی میں کمانی والا تیار ہوتا ہے۔ یہ ڈھائی ہزار سے ساڑھے 4 ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔‘‘ دکاندار رافع کا کہنا تھا کہ ’’مارکیٹ میں 150 دکانوں پر چھری، ٹوکے اور لوہے کی اشیا کا کاروبار ہوتا ہے۔ جبکہ 130 پر مڈیوں وغیرہ کا بزنس ہوتا ہے۔‘‘ دکاندار محبوب کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ سال 14 کروڑ روپے کا بزنس ہوا تھا۔ اس بار بھی اتنا ہی بزنس متوقع ہے۔ ابھی مارکیٹ اور اسٹالز میں زیادہ خریدار نہیں آرہے ہیں۔ لیکن یوم آزادی ختم ہوتے ہی رش بڑھ جائے گا۔ اس مارکیٹ میں ہول سیل دکاندار ملک بھر سے آتے ہیں اور اسٹالز والے بھی سامان لے جاتے ہیں۔ کراچی میں لگ بھگ ایک ہزار سے زائد اسٹالز لگتے ہیں۔ وزیرآباد سے اس مرتبہ کئی کروڑ کا مال منگوایا گیا ہے۔‘‘ دکاندار مراد علی کا کہنا تھا کہ ’’وزیرآباد، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ سے لوہے کا سامان آرہا ہے۔ جبکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بعد اسٹیل، لوہا، ریتی، ریلوے پٹری اور کوئلے کے دام بڑھے ہیں اور بجلی کے بل بھی دوگنے آرہے ہیں۔‘‘ مرکزی مارکیٹ میں چھری اور بغدے کو دھار لگانے والے جاوید کا کہنا تھا کہ ’’ابھی رش شروع نہیں ہوا ہے تاہم مارکیٹ میں دوگنی اجرت وصول کی جارہی ہے۔ جبکہ گلی کوچوں میں یا مارکیٹوں کے باہر لگنے والے اسٹالز پر اجرت تین گنا تک زائد وصول کی جارہی ہے۔ ان دنوں چاپڑ دو سو روپے، بغدہ ڈھائی سے ساڑھے تین سو روپے، اونٹ نحر کرنے والا چھرا 600 روپے، چھریاں سائز کے حساب سے 80 سے 400 روپے تک میں تیز کی جا رہی ہیں۔‘‘ لکڑی کی مڈیاں فروخت کرنے والے حیدر کا کہنا تھا کہ عام طور پر مڈیاں کیکر کی لکڑی سے بنتی ہیں جو زیادہ تر قصاب لے کر جاتے ہیں۔ تاہم بقر عید پر سلاچی، سفیدے، سنبل اور آم کی لکڑی کی مڈیاں بنائی جاتی ہیں۔ کیکر کی لکڑی 70 سے 80 روپے کلو ہے۔ جبکہ دیگر اقسام کی لکڑیاں سستی ہیں۔ قصاب 15 سے 19 انچ والی مڈی خریدتے ہیں۔ بقرعید پر 6 سے 24 انچ والی مڈیاں زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ 6 انچ والی ڈھائی کلو تک بنتی ہے جو 200 سے تین سو روپے کی فروخت کی جا رہی ہے۔‘‘ دکانداروں کا کہنا تھا کہ سستی لکڑی کی مڈی پر گوشت کاٹا جائے تو لکڑی کا چورا گوشت میں مل جاتا ہے۔
ہول سیل مارکیٹ کی دکانوں میں گوشت لٹکانے والے آہنی ہک، زنجیروں، لوہے کی راڈیں، انگھیٹی، سیخیں اور دیگر اشیا بھی فروخت کی جارہی تھیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment