ڈرون حملوں کی بوچھاڑ بھی افغان طالبان کا گھیرا نہ توڑ سکی

محمد قاسم
ڈرون حملوں کی بوچھاڑ بھی غزنی میں افغان طالبان کا گھیرا نہ توڑ سکی۔ افغان طالبان نے تازہ حملوں میں 60 افغان فوجی اور ایک طیارہ مار گرایا۔ جبکہ زمینی فوج بھیجنے سے انکاری امریکہ آبادیوں کو نشانہ بنانے لگا ہے۔ ادھر عید قرباں کے پیش نظر عمائدین نے طالبان سے علاقہ چھوڑنے کی درخواست کردی ہے۔
افغان طالبان پر پہلی بار امریکا کی جانب سے سو سے زائد ڈرون طیاروں کے بیک وقت حملوں کے باوجود مجاہدین کا غزنی شہر پر کنٹرول برقرارہے۔ افغان طالبان اور سرکاری فوج کے درمیان جھڑپوں میں 60 سے زائد سرکاری فوجیوں کی ہلاکتکی اطلاع ہے۔ طالبان نے ایک طیارے کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے اور حکام نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کی صبح دو بج کر پندرہ منٹ پر افغان طالبان نے افغانستان کے مشرقی صوبہ غزنی کے دارالحکومت غزنی پر چاروں طرف سے دھاوا بول دیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے گورنر ہائوس تک پہنچ گئے۔ جھڑپ کے دوران گورنر فرار ہو گئے، جبکہ پولیس چیف بھی پولیس ہیڈ کوارٹر سے محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے۔ افغان طالبان گورنر ہائوس پر قبضے کے قریب پہنچنے والے تھے کہ امریکا سے مدد طلب کرلی گئی اور امریکا نے تاریخ میں پہلی بار بیک وقت سو سے زائد ڈرون طیاروں کو طالبان کیخلاف استعمال کیا۔ امریکی ہیلی کاپٹروں اور سو سے زائد ڈرونز نے چاروں طرف سے طالبان پر حملے کر دیئے جس سے غزنی کے گورنر ہائوس کے اطراف قائم بازار تباہ ہو گئے، جبکہ ہفتے کے روز بھی غزنی میں جھڑپیں جاری رہیں اور ملبوں سے لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے میں امدادی کارکنوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ غزنی اسپتال کے ڈاکٹر نیک عمل شاہ کے مطابق 80 زخمیوں اور 40 سے زائد لاشوں کو اسپتال منتقل کیاگیا۔ تاہم کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے غزنی پر حملہ کر کے امریکا سمیت افغان حکومت کو پریشان کر دیا ہے کیونکہ افغان طالبان پہلے ہی شمالی افغانستان کے صوبہ قندوز اور فراہ میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہلمند اور کابل پر بھی دبائو بڑھا دیا گیا ہے۔ اسی طرح پہلی بار مشرقی افغانستان کے صوبہ غزنی پر قبضے کیلئے افغان طالبان کی بھر پور کارروائی نے اتحادی افواج کو پریشان کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے غزنی کو بچانے کیلئے طالبان پر بیک وقت سو ڈرونز سے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں بہت سی خواتین اور بچے بھی جاں بحق ہو گئے۔ تاہم غزنی شہر میں ٹیلی فون اور انٹر نیٹ سروس بند ہونے کی وجہ سے مکمل حالات سے لوگوں کو آگاہی نہیں مل رہی۔ امریکا نے افغان حکومت کو غزنی میں زمینی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ زمینی فوج آنے تک غزنی شہر طالبان کے حملوں کی زد میں رہے گا اور غزنی شہر پر طالبان کے حملوں کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ لڑائی میں غزنی شہر کے اطراف میں افغان طالبان نے ایک امریکی طیارے کو مار گرایا ہے۔ مقامی پولیس نے واقعے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم اس امر کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ جیٹ طیارہ ہے یا ہیلی کاپٹر ہے۔ کیونکہ افغانستان میں مقامی زبان میں دونوں کیلئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق طالبان نے امریکی جیٹ طیارے کو مار گرایا ہے جس میں پائلٹ مارے گئے ہیں جبکہ پائلٹوں کی لاشیں اور طیارے کا ملبہ طالبان کے قبضے میں ہے۔ دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ قندھار، پکتیا اور دیگر مشرقی علاقوں سے افغان طالبان نے ایک منصوبہ بندی کے تحت غزنی پر حملہ کیا۔ غزنی پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عید الاضحی پر افغان حکومت تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ تاہم طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان مزید جنگ بندی نہیں کریں گے اور نہ ہی مذاکرات کیلئے جنگ روکیں گے، کیونکہ طالبان مکمل فتح پر یقین رکھتے ہیں اور مکمل فتح کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اب یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ افغانستان کے کئی محاذوں پر بیک وقت کارروائی شروع کریں تاہم اس کی اجازت ابھی تک نہیں ملی، کیونکہ افغان طالبان عام لوگوں کی اموات نہیں چاہتے اور لڑائی میں عام لوگ بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔ افغان طالبان کے ذرائع کے مطابق غزنی میں امریکی ڈرونز نے کئی گھنٹوں تک طالبان کا راستہ روکا، تاہم ابھی تک طالبان شہر کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں اور افغان فوجی دستے کابل قندھار شاہراہ پر کھڑے ہیں۔ یہ شاہراہ غزنی تک جاتی ہے۔ جبکہ غزنی اور کابل شاہراہ پر افغان طالبان کا قبضہ ہے۔ حکومت نے مقامی سرداروں کے ذریعے طالبان کو غزنی سے واپس بھیجنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور اس حوالے سے مقامی طالبان اور عمائدین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ افغان عمائدین نے طالبان سے درخواست کی ہے کہ وہ غزنی شہر کا محاصرہ چھوڑ دیں کیونکہ عید میں چند دن باقی ہیں اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور قوی امکان ہے کہ افغان طالبان عمائدین کی درخواست پر غزنی شہر کا محاصرہ چھوڑ دیں۔ تاہم افغانستان کے مشرقی علاقوں سے تازہ دم افغان طالبان دستے بھی غزنی پہنچنا شروع ہو گئے ہیں اور غزنی میں اگر طالبان اور عمائدین کے مذاکرات ناکام ہو گئے تو شدید لڑائی چھڑنے کا امکان ہے کیونکہ غزنی کے اطراف میں واقع صوبوں پر طالبان کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment