میاں منشا کو منی لانڈرنگ سے متعلق سوالات کے سامنے کا امکان

نجم الحسن عارف
پاکستان کے بڑے بزنس ٹائیکون اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بہت قریب سمجھے جانے والے میاں منشا کو نیب لاہور نے 17 اگست کو طلب کیا ہے۔ میاں منشا کی یہ طلبی ان کے لندن میں کئی برس قبل خریدے گئے ہوٹل کے حوالے سے ہوئی ہے۔ نیب میں یہ پیش رفت سپریم کورٹ کی جانب سے بھجوائے گئے معاملے پر ہوئی، جس میں فاروق سلہریا نے میاں منشا کی طرف سے لندن میں خریدے گئے سینٹ جیمز ہوٹل اینڈ کلب کے بارے میں نشاندہی کی تھی کہ اس ہوٹل کی خریداری کیلئے روپیہ لندن کہاں سے پہنچا اور کیسے پہنچایا گیا؟ نیب ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں یقیناً منی لانڈرنگ سے متعلق سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ نیز اس سلسلے میں منی ٹریل کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ابھی یہ معاملہ انکوائری کے پہلے مرحلے پر ہے، جس میں بنیادی طور پر نیب کو ملنے والی شکایت کی روشنی میں ممکنہ حقائق اور شواہد اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ اس مرحلے میں اگر پیش رفت محسوس ہو اور شکایت درست نکلنے کا امکان لگ رہا ہو تو الگ سے دو ماہ کے اندر باضابطہ انکوائری شروع کر دی جاتی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق انکوائری کا مرحلہ شروع ہونے پر کسی فرد کو باضابطہ طور پر انکوائری کے لئے طلب کیا جاتا ہے۔ فی الحال یہ اس سے پہلے کا مرحلہ ہے۔ اس میں نیب چاہے تو جس فرد کے بارے میں شکایت ہو اسے بلا سکتا ہے۔ اس لئے میاں منشا کو اسی سلسلے میں 17 اگست کو بلایا گیا ہے تاکہ ان کے بارے میں سامنے آنے والی شکایت اور اس شکایت کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے شواہد پر ان سے بھی بات ہو سکے۔ واضح رہے کہ نیب لاہور میاں منشا کے خلاف شکایت کنندہ فاروق سلہریا کو بھی تفصیل سے سن چکا ہے جس میں فاروق سلہریا نے بعض شواہد بھی فراہم کئے۔ ان میں لندن میں سینٹ جیمز ہوٹل اینڈ کلب کی خریداری سے متعلق مبینہ طور پر بعض دستاویزی ثبوت بھی شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب ہونے والی اطلاعات کے مطابق 17 اگست کو میاں منشاء اگر نیب میں پیش ہوتے ہیں تو یہ نیب میں حالیہ برسوں کے دوران دوسری حاضری ہو گی۔ اس سے قبل 2015ء میں انہیں نیب نے ایم سی بی (سابقہ مسلم کمرشل بینک) کی خریداری میں روا رکھی گئی بے ضابطگیوں کے حوالے سے بلایا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق 1990ء کی دہائی کے شروع میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری مبینہ طور پر اس طرح ہوئی کہ ایک بینک کے خریدار میاں منشا نے بینک کی خریداری کیلئے ادائیگی بھی اسی بینک میں موجود رقم سے کی تھی۔ تاہم جب تین سال قبل میاں منشا کو نیب نے اس بارے میں وضاحت کیلئے بلایا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ بہت پرانا معاملہ ہے اس لئے بہت ساری چیزیں اب ان کے ذہن میں تازہ نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق میاں منشا نے کئی سوالوں کے جواب میں یہی موقف اختیار کیا کہ یہ پرانا معاملہ ہے فوری طور پر اس بارے میں کچھ وثوق سے کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق میاں منشا نے صبح تقریباً دس بجے سے ایک بجے تک تین گھنٹے کے لئے پانچ رکنی نیب ٹیم کا سامنا کیا تھا۔ لیکن کوئی معاملہ کسی منطقی انجام کی طرف نہیں جا سکا تھا۔ اس موقع پر نیب کی ٹیم نے بینک کی انہیں میرٹ سے ہٹ کر فروخت کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔ نیز اس سلسلے میں بینک گارنٹی بھی جعلی ہونے کا الزام لگایا تھا۔
اب کی بار میاں منشا کو لندن میں مبینہ طور پر ان کے زیر ملکیت ایک بہت بڑے اور بہت مہنگے ہوٹل کے حوالے سے طلب کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک میاں منشا کی جانب سے یہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ وہ اس معاملے میں نیب پیش ہو رہے ہیں یا نہیں۔ ذرائع کے مطابق 92ء کی دہائی میں ملک کے معروف بینک کے مالک بننے کے بعد ان کی کاروباری ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوگیا۔ بعض ذرائع تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا کاروبار صرف لندن میں ہی نہیں بلکہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین میں بھی موجود ہے۔ تاہم ابھی منشا گروپ سے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں ہوئی۔ واضح رہے میاں منشا، ملک کے ایک بہت بڑے کاروباری گروپ منشا گروپ کے مالک ہیں۔ وہ نشاط کے نام سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مالک ہیں۔ اس انڈسٹری نے اب کپڑا بنانے کے علاوہ گارمنٹس سازی اور گارمنٹس کی براہ راست فروخت سے متعلق ایک بڑی چین بھی قائم کی ہے۔ ایم سی بی کا مالک ہونے کے علاوہ ملک میں ایک سے زائد سیمنٹ فیکٹریوں کے بھی مالک ہیں، جبکہ ایمپوریم کے نام سے بنائے گئے شاپنگ مالز اور اس میں قائم کئے ہوٹلوں کے بھی مالک ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہوٹل انڈسٹری کو سمجھنے کے حوالے سے پاکستان میں ان کے گروپ کے لوگ پاکستان میں سات تارہ ہوٹل بنانے کی بات کرتے تھے تاہم ابھی یہ معیار حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ذرائع کے مطابق حالیہ چند برسوں میں میاں منشا کے کاروباری گروپ نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ تاہم فی الحال نیب میں شروع کی گئی ’’فیکٹ فائنڈنگ‘‘ کا یہ موضوع نہیں، بلکہ صرف لندن میں ان کی طرف سے مبینہ طور پر خریدے گئے معروف ہوٹل اینڈ کلب کا موضوع ہے کہ اس کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا۔ یعنی اس کی منی ٹریل کیا ہے اور اگر پاکستان سے سرمایہ گیا تو آیا یہ قانونی طریقوں کے مطابق گیا تھا؟
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا ہے کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں پنجاب حکومت میں اپنے اثرات کی وجہ سے میٹرو بس کے پروجیکٹ کو بھی پنجاب حکومت سے حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تاہم یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تھی۔ انہی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہوٹلنگ کے شعبے میں میاں منشا کے خاندان کا تجربہ اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کے لاہور میں بنائے گئے ہوٹلوں سے متعلق معاملات کو اب ان کی ایک بہو دیکھتی ہیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس میں شبہ نہیں کہ میاں منشا کے شریف خاندان کے ساتھ تعلقات پچھلے 25، 30 سال سے ہیں۔ لیکن ایک کاروباری شخصیت ہونے کی وجہ میاں منشا نے اپنے تعلقات کو کبھی کسی ایک خاندان یا حکومت تک محدود نہیں ہونے دیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment