خیبر پختون سے دہشت گرد گلگت بلتستان پہنچنے لگے

امت رپورٹ
گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے حوالے سے سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں صوبہ خیبر پختونخواہ سے دہشت گرد پہنچ رہے ہیں، جو مقامی شدت پسندوں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کر رہے ہیں اور یہ کہ وہاں پہنچنے والے دہشت گردوں کو مقامی سہولت کاروں کی مدد حاصل ہے۔ جبکہ ان کارروائیوں کے پیچھے بھارتی ’’را‘‘ اور افغان ’’این ڈی ایس‘‘ کا ہاتھ ہے، جنہوں نے بلوچستان میں مایوسی کے بعد سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے گلگت بلتستان کو ہدف بنا لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس پہلو پر تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ اسکولوں کو نذر آتش کرنے اور جج پر گولیاں چلانے والے آیا خیبر پختون کے مقامی لوگ تھے یا وہ افغان سرحد عبور کر کے پہلے کے پی کے اور بعد ازاں گلگت بلتستان پہنچے، جہاں انہیں مقامی ریاست مخالف عناصر نے پناہ دی۔
ذرائع کے بقول شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کی تازہ لہر کے پیچھے مقامی اور باہر سے آنے والے دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ کارفرما ہے۔ ہفتے کے روز پولیس چوکی پر حملے میں تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ جبکہ جوابی کارروائی میں ایک دہشت گرد ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ باقی دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ گلگت بلتستان پولیس کے مطابق ہلاک دہشت گرد کی شناخت کمانڈر خلیل کے نام سے ہوئی ہے جس کے سر پر تیس لاکھ روپے کا انعام تھا اور وہ نانگا پربت میں غیر ملکی سیاحوں اور چلاس میں تین سیکورٹی اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا۔ جبکہ زخمی دہشت گرد کو کمانڈر عمر کے نام سے شناخت کیا گیا ہے اور دونوں کا تعلق دیامر سے بتایا جا رہا ہے۔ بعض سرکاری حکام کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والے دہشت گرد نے افغان صوبے نورستان میں تربیت حاصل کی تھی۔
گلگت بلتستان انتظامی طور پر تین ڈویژن بلتستان (جس میں شگر، کھر منگ ، گھانچے اور اسکردو شامل ہیں)، گلگت (جس میں غذر، ہنزہ اور نگر آتے ہیں) جبکہ دیامر اور استور پر مشتمل ضلع دیامر شامل ہے۔ گلگت بلتستان کی مغربی سرحد صوبہ خیبر پختونخوا سے لگتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی سرحد کو عبور کر کے دہشت گردوں نے گلگت بلتستان میں تازہ کارروائیاں کی ہیں۔ جہاں انہیں مقامی شدت پسندوں اور بھارتی فنڈنگ یافتہ لوکل سہولت کاروں کی مدد حاصل ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جیسے جیسے پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) میں پیش رفت ہو رہی ہے بھارت نے گلگت بلتستان پر اپنا فوکس بڑھا دیا ہے۔ شمال مشرقی سرحد کی جانب سے چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ لگنے والا گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہے۔ یہاں سے پروجیکٹ کی 450 کلو میٹر طویل راہداری گزر رہی ہے۔ اس کے لئے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ریل کی پٹریوں کا جال بھی بچھایا جائے گا۔ ذرائع کے بقول بھارت سمجھتا ہے کہ سی پیک پر کاری ضرب لگانے کے لئے گلگت بلتستان کو ڈسٹرب کرنا ضروری ہے اور اب وہ اسی منصوے پر کام کر رہا ہے۔ یہ اسائنمنٹ قریباً دو ڈھائی برس قبل افغانستان میں موجود ’’را‘‘ کے ڈیسک کو دیا گیا تھا۔ قبل ازیں اس ڈیسک کا کام پروپیگنڈا کر کے مقامی لوگوں کے جذبات سی پیک کے خلاف ابھارنا تھا۔اس کے لئے عالمی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص بھارتی میڈیا میں گلگت بلتستان میں علیحدگی پسندوں کے احتجاج سے متعلق بے بنیاد خبریں چلائی گئیں۔ جسے مختلف ممالک میں موجود گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر ریاست مخالف عناصر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہے۔ مقصد اس بے بنیاد تاثر کو گہرا کرنا تھا کہ گلگت بلتستان میں بھی علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پروپیگنڈے کو بھی تیز کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق تاہم اس حربے میں مسلسل ناکامی کے بعد اب بھارت نے گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے ذریعے سی پیک کو متاثر کرنے کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اس کے لئے افغانستان میں موجود ان دہشت گردوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جو بلوچستان اور کے پی کے سمیت ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان دہشت گردوں کا گلگت بلتستان میں موجود شدت پسندوں سے گٹھ جوڑ کرا دیا گیا ہے۔ ضلع دیامر میں اسکول نذر آتش کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں گروہ کا سرغنہ مارا گیا تھا۔ جس کے بارے میں گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سرغنہ کی شناخت کمانڈر شفیق کے نام سے ہوئی ہے۔ اور یہ کہ اس کے ٹھکانے سے خود کش جیکٹ، دستی بم اور بھاری اسلحہ برآمد ہوا۔ یہ اطلاعات بھی تھیں کہ اسکول جلانے والے دہشت گرد افغانستان سے تربیت یافتہ ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر کسی نے اس حملے سمیت سیشن جج پر فائرنگ کی ذمہ داری تاحال قبول نہیں کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بعض تفتیش کار اس پہلو پر بھی کام کر رہے ہیں کہ ملک دشمن غیر ملکی ایجنسیوں نے گلگت بلتستان کے لئے کوئی نیا دہشت گرد گروپ نہ کھڑا کر دیا ہو۔ ذرائع کے مطابق اسکولوں کو نذر آتش کئے جانے کے واقعے کے بعد سے دیامر سمیت گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں انٹیلی جنس کا جال بچھا دیا گیا ہے تاکہ حملے میں شامل افراد، مقامی منصوبہ سازوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا جا سکے۔ جبکہ دو روز قبل گلگت بلتستان اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔ تاہم اپیکس کمیٹی میٹنگ کے دوسرے روز ہی پولیس چیک پوسٹ پر حملہ ہو گیا اور بعد ازاں ڈپٹی کمشنر دیامر دلدار ملک کے گھر پر فائرنگ ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں ان بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لئے فوری سخت اقدامات نہ کئے گئے تو صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو میں اہل تشیع آبادی ہے جبکہ دیامر اور استور میں سنی اکثریت ہے۔
گلگت بلتستان میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ ان ساری کارروائیوں میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ چونکہ امریکہ بھی سی پیک کے خلاف ہے لہٰذا اس کا عمل دخل بھی خارج از امکان نہیں۔ جنرل امجد شعیب کے بقول ابھی تک حتمی طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر میں کون سا مخصوص گروپ ملوث ہے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کا ڈی این اے کرایا جا رہا ہے تاکہ حتمی طور پر معلوم کیا جا سکے کہ وہ افغانستان سے آئے تھے یا خیرپختون کے مقامی لوگ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگار کا مزید کہنا تھا کہ ’’ گلگت بلتستان سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ریاستوں، مختلف یورپی ممالک اور امریکہ میں کام کاج کے سلسلے میں گئی ہوئی ہے۔ یہ زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان میں شرح خواندگی 90 فیصد کے قریب ہے۔ اسکول اور کالجز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ آغا خان فائونڈیشن نے یہاں بڑا کام کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہی اس ریجن کے زیادہ تر لوگ باہر گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ بھارت نے روابط بنا لئے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو بھارت کا دورہ بھی کرایا گیا ہے۔ بیرونی ممالک کے علاوہ بھاری فنڈنگ کے ذریعے گلگت بلتستان میں موجود مٹھی بھر عناصر کو متحرک کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ انہیں آزادی کی تحریک چلانے پر ابھارا جا رہا ہے۔ اس طرح کی اکا دکا آوازیں اٹھتی بھی رہی ہیں لیکن انہیں عوامی پذیرائی نہیں مل سکی‘‘۔ جنرل (ر) امجد شعیب کے بقول یہ بیک گرائونڈ اپنی جگہ لیکن فوری معاملہ یہ ہے کہ بھارت نے گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے ذریعے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کا جو پلان بنا رکھا ہے اس میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ دہلی، گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہاں سے سی پیک نہ گزارا جائے۔ اگر بھارت کی یہ بات تسلیم کر لی جائے اور سی پیک اس راستے سے آگے نہیں جاتا تو اس کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کا سارا فوکس اب گلگت بلتستان پر ہو گیا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اس علاقے کو جس قدر ممکن ہو سکے غیر مستحکم کر دیا جائے۔ تاکہ اس افراتفری کے سبب سی پیک میں ڈویلپمنٹ نہ ہو سکے۔ بھارت مایوس ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے حوالے سے اسے زیادہ کامیابی نہیں مل سکی حالانکہ وہ بلوچستان میں بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ دالبندین میں ہونے والا تازہ خود کش حملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے تک جس طرح بلوچستان میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کی گئی تھیں اور دیگر صوبوں کے مزدوروں، ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو چن چن کر مارا جا رہا تھا، سیکورٹی اداروں نے یہ سلسلہ وہاں روک دیا ہے۔ جس پر بھارت کی فرسٹریشن بڑھی۔ لہٰذا اب اس نے گلگت بلتستان کے دور دراز اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے نشانے پر رکھ لیا ہے، جہاں دہشت گردوں کے چھپنے کی بہت سی جگہیں ہیں۔ ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم ابتدائی اسٹیج میں ہی اگر ان کارروائیوں پر قابو نہ پایا گیا تو یہ معاملہ بڑھ سکتا ہے۔ جنرل (ر) امجد شعیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے منظور پشتین نے شور شرابہ کر کے فاٹا اور خیبر پختون میں واقع چیک پوسٹوں میں جو کمی کرائی ہے اس کے نتیجے میں بھی کے پی کے سے دہشت گردوں کو گلگت میں داخل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment