مولانا رومیؒ نے اپنے پیرو مرشد شیخ شمس تبریزؒ کی صحبت میں رہ کر اپنی نسبت میں تمام اس آگ کو جذب کرلیا، جس کے متعلق حضرت تبریزؒ نے دعا مانگی تھی کہ خدایا! مجھے ایسا بندہ دیجئے، جو میری صحبت کا متحمل ہو سکے اور پھر علوم و معارف کا آپ کے سینے میں ایسا جوش ہوا کہ آپؒ نے ایک مثنوی شریف لکھی، جس میں اٹھائیس ہزار آٹھ اشعار ہیں اور ہر شعر الہامی ہے، یعنی واردات غیبیہ ہیں، جس کو حضرت مولاناؒ خود بیان فرماتے ہیں۔
ترجمہ: جب میں قافیہ (یعنی اشعار موزون کرنا) سوچنے لگتا ہوں تو میرا محبوب مجھ سے کہتا ہے، مت سوچ بجز میرے دیدار کے یعنی تم صرف میری طرف متوجہ رہو، قوافی (قافیہ کی جمع) ہم الہام فرمائیں گے۔ تم قافیہ اندیشی میں مشغول نہ ہو۔ (یہ حق تعالیٰ کی طرف اشارہ ہے) مولانا رومیؒ کا ایک دیوان (اشعار مجموعہ) بھی ہے، جس میں پچاس ہزار اشعار ہیں۔ بعض لوگ غلطی سے اس کو حضرت شمس تبریزؒ کا دیوان سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اکثر مقطع (غزل کا آخر میں شعر جس میں شاعر کا تخلص ہو) میں حضرت شمس تبریزؒ کا نام ہے۔
مولانا رومیؒ کے انتقال کا وقت جب قریب ہوا تو قونیہ (موجودہ ترکی کا ایک شہر) میں بڑے زور کا زلزلہ آیا اور چالیس دن تک اس کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔ مولانا رومیؒ نے فرمایا کہ زمین بھوکی ہے۔ تر لقمہ چاہتی ہے۔ چند روز کے بعد مولانا علیل و بیمار ہوئے۔ 672ھ جمادی الثانی بروز اتوار بوقت غروب آفتاب ہمیشہ کے لئے یہ آفتاب علم و حکمت غروب ہوگیا۔ رات کو غسل و کفن کا بندوبست کیا گیا۔ صبح کو جنازہ اٹھا۔
بادشاہ وقت سے لے کر فقیر و غریب تک سب ہمراہ تھے۔ اس قدر ہجوم تھا کہ صبح کا جنازہ نکلا شام کو قبرستان تک پہنچا۔ آپؒ کے شاگرد شیخ صدر الدینؒ جب جنازے کی نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے۔ پھر حضرت قاضی سراج الدینؒ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ 68 سال کی عمر پائی تھی۔ آپؒ کا پورا نام محمد جلال الدینؒ مولانائے روم ہے اور قونیہ میں مدفون ہیں۔
مولانا رومیؒ کی مثنوی شریف بہت با فیض کتاب ہے۔ مولانا کے بعد آج تک امت محمدیؐ کے تقریباً تمام اہل علم اولیاء نے مثنوی شریف کے علوم معارف سے فیض اٹھایا اور اٹھاتے رہیں گے۔ (معرفت الٰہیہ ص 254 تالیف مولانا محمد اختر)
کتاب معرفت الٰہیہ کے صفحہ 223 پر اولیاء کی توجہ کی ایک عجیب مثال لکھی ہے۔ لکھا ہے کہ حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ فرمایا کرتے تھے کہ قاز ایک چڑیا ہے، جو انڈے دے کر اڑ جاتی ہے اور کوسوں دور رہ کر اپنی توجہ سے انڈوں کو حرارت پہنچاتی ہے اور اس حرارت سے بچہ نکل آتا ہے۔ آگے لکھا ہے کہ جب ادنیٰ مخلوق کی توجہ میں یہ اثر حق تعالیٰ شانہ نے رکھا ہے، تو اولیاء میں ایسے اثرات کے متعلق کیا تعجب ہے۔
کتاب نزہۃ المجالس جلد 1 صفحہ 107 پر حضرت مولانا عبد الرحمن صفوریؒ نے لکھا ہے کہ کچھوا اپنے انڈوں کو نہیں سیتا، بلکہ ان کی طرف دیکھا کرتا ہے۔ اس کی نگاہ کا ان میں اثر ہوتا ہے اور بچے نکل آتے ہیں، پھر بھلا خدا تعالیٰ کی نظر کسی بندہ مؤمن کے دل پر رہے تو کیا کچھ کیفیت ہوتی ہوگی۔ خدا کے حکم سے اولیاء بھی توجہ کرتے ہیں۔