معارف و مسائل
عَلَّمَ شَدِیدُ القُویٰ… یہاں سے سترہویں آیت تک تمام آیات میں اس کا بیان ہے کہ رسول اقدسؐ کی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ خدا کا کلام ہے، جو آپ کو اس طرح دیا گیا ہے کہ اس میں کسی التباس و تلبیس یا خطاء اور غلطی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔
آیات نجم کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کا اختلاف:
ان آیات کے بارے میں ائمہ تفسیر سے دو تفسیریں منقول ہیں، ایک کا حاصل یہ ہے کہ ان سب آیات کو واقعہ معراج کا بیان قرار دے کر حق تعالیٰ سے تعلیم بلا واسطہ اور رئویت و قرب حق تعالیٰ کے ذکر پر محمول فرمایا اور شَدِیدُ القویٰ … سب کو حق تعالیٰ کی صفات و افعال قرار دیا اور آگے جو رئویت و مشاہدہ کا ذکر ہے، اس سے بھی حق تعالیٰ کی رئویت و زیارت مراد لی۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت انسؓ اور ابن عباسؓ سے یہ تفسیر منقول ہے، تفسیر مظہری میں اسی کو اختیار کیا ہے اور بہت سے حضرات صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ تفسیر نے ان آیات کو جبرئیل (علیہ السلام) کے ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا بیان قرار دیا ہے اور شَدِیدُ القویٰ وغیرہ جبرئیل امینؑ کی صفات بتلائی ہیں، اس کی بہت سی وجوہ ہیں، تاریخی حیثیت سے بھی سورئہ نجم بالکل ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور حسب تصریح حضرت ابن مسعودؓ سب سے پہلی سورت جس کو آنحضرتؐ نے مجمع عام میں اعلاناً پڑھا ہے، یہی سورت ہے اور ظاہر یہی ہے کہ واقعہ معراج اس سے مؤخر ہے، لیکن اس میں کلام کیا جا سکتا ہے، اصل وجہ یہ ہے کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اقدسؐ سے ان آیات کی تفسیر رویت جبرئیلؑ سے منقول ہے، جس کے الفاظ مسند احمد میں یہ ہیں:
شعبی ؒحضرت مسروقؒ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک روز حضرت صدیقہ عائشہؓ کے پاس تھے (رئویت باری تعالیٰ کے مسئلے میں گفتگو تھی) مسروق کہتے ہیں کہ میں نے کہا حق تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ولقد راہ … تا… نزلۃ اخری‘‘ حضرت صدیقہؓ نے فرمایا کہ پوری امت میں سب سے پہلے میں نے رسول اکرمؐ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس کے دیکھنے کا آیت میں ذکر ہے، وہ جبرئیل (علیہ السلام) ہیں، جن کو رسول اکرمؐ نے صرف دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے۔ آیت میں جس رئویت کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جبرئیل امین کو آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہوئے دیکھا کہ ان کے جثے نے زمین و آسمان کے درمیان کی فضا کو بھر دیا تھا۔‘‘(ابن کثیر)
صحیح مسلم میں بھی یہ روایت تقریباً انہی الفاظ سے منقول ہے اور فتح الباری کتاب التفسیر میں حافظ نے ابن مردویہ سے یہی روایت اسی سند کے ساتھ نقل کی ہے ، جس میں صدیقہ کے الفاظ یہ ہیں :
یعنی صدیقہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس آیت کے متعلق سب سے پہلے میں نے خود رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے جبرئیل کو اترتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ (فتح الباری، ص 493 ج 8 )(جاری ہے)