نسطو راراہب کی گواہی

رسول اقدسؐ کی عمر مبارک جب پچیس سال ہوئی، مکہ بھر میں اس وقت آپؐ صادق و امین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ نام اس لئے مشہور تھا کہ نیک عادتیں آپؐ کی ذات میں حد کمال کو پہنچی ہوئی تھیں۔ ایک روز آپؐ سے آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب نے گزارش کی:
اے میرے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال و زر نہیں۔ زمانہ ہم پر شدت اور سخت گیری کر رہا ہے۔ پے درپے کئی مشکل حالات گزرتے چلے آئے ہیں اور حالت یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس مال و دولت ہے اور نہ سامان تجارت۔ یہ تیری قوم کا قافلہ ہے کہ ملک شام میں اس کے سفر کا وقت آگیا ہے اور خدیجہ بنت خویلد تیری قوم کے لوگوں کو اپنے ساتھ بھیجتی ہے۔ اگر تو بھی اپنے آپ کو پیش کرے تو بہتر ہے۔
سیدہ خدیجہؓ کو یہ خبر ملی تو آنحضرتؐ کو پیغام بھیجا، جو اجرت اوروں کو دیتی تھیں، آپؐ کیلئے اس سے زیادہ معاوضہ قرار دیا۔ آنحضرتؐ اس قرار داد کے مطابق سیدہ خدیجہؓ کے غلام میسرہ کے ساتھ چلے۔ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچے اور وہاں کے بازار میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرے۔ ایک راہب جس کا نام نسطورا تھا، یہ مقام اس کی عبادت گاہ کے قریب ہی واقع تھا۔ میسرہ کو یہ راہب پہلے سے جانتا تھا، اس کے پاس آکے پوچھا:
’’اے میسرہ اس درخت کے نیچے کون ٹھہرا ہے؟‘‘
میسرہ نے کہا ’’ایک قریشی جو حرم کعبہ والوں میں سے ہے‘‘۔
راہب نے کہا ’’اس درخت کے نیچے آج تک سوائے پیغمبر کے کوئی نہیں ٹھہرا‘‘۔
یہ کہہ کے میسرہ سے پوچھنے لگا: ’’کیا ان کی دونوں آنکھوں میں سرخی ہے؟‘‘
میسرہ نے جواب دیا ’’ہاں اور یہ سرخی کبھی ان سے جدا نہیں ہوئی‘‘۔
راہب نے کہا ’’تب وہی آخری پیغمبر ہے۔ اے کاش میں وہ زمانہ پاتا جب ان کے ظہور کا وقت آتا‘‘۔
اسی سفر میں یہ بات پیش آئی کہ رسول اقدسؐ جو مال لے کر مکہ مکرمہ سے چلے تھے، وہ بصریٰ کے بازار میں فروخت کرکے وہاں سے نیا مال خریدنے لگے۔ اس دوران ایک شخص کے ساتھ کسی چیز میں بھاؤ طے ہو رہا تھا کہ اس نے کہا ’’لات و عزیٰ کی قسم کھاؤ‘‘
رسول اقدسؐ نے فرمایا ’’میں نے کبھی ان کی قسم نہیں کھائی۔ میں پاس سے گزرتا ہوں تو ان کی جانب سے منہ پھیر لیتا ہوں‘‘۔
میسرہ کو راہب نے تنہائی میں کہا ’’خدا کی قسم یہ پیغمبر ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم! کہ یہ وہی ہے جس کی صفت ہمارے علماء اپنی کتابوں میں پاتے ہیں‘‘۔
یہ سب باتیں میسرہ نے ذہن نشین کرلیں۔ آخر کار تمام قافلے والے واپس چلے۔
میسرہ کی نگاہ (سفر کے دوران) رسول اقدسؐ پر تھی۔ جب دوپہر ہوتی اور گرمی پڑتی تو دیکھتا کہ آنحضرتؐ تو اونٹ پر سوار ہیں اور غیبی طریقے سے آپؐ پر سایہ کیا جا رہا ہے۔ راویوں کا بیان ہے کہ رب تعالیٰ نے میسرہ کے دل میں آنحضرتؐ کی ایسی محبت ڈال دی کہ وہ آپ کا گویا غلام بن گیا۔واپسی میں جب مقام مرالظہران پہنچے تو آنحضرتؐ سے عرض کیا:
’’آپ خدیجہؓ کے پاس جایئے اور مجھ سے پہلے پہنچ جایئے۔ آپ کے باعث مال میں حق تعالیٰ نے خدیجہؓ کو جو نفع پہنچایا ہے اس سے مطلع فرمایئے‘‘۔رسول اکرمؐ آگے چلے، یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ پہنچے۔ ادھر سیدہ خدیجہؓ اپنے بالاخانہ میں چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ جن میں ایک نفیسہ بنت منیہ بھی تھیں۔ رسول اقدسؐ کو آتے دیکھا کہ آپؐ اپنے اونٹ پر سوار ہیں اور دو غیبی مخلوق سایہ کر رہی ہیں۔ ان عورتوں کو یہ حالت دکھائی دی تو نہایت تعجب ہوا۔ پھر سیدہ خدیجہؓ کے پاس آنحضرتؐ تشریف لائے اور مال میں جو نفع ہوا تھا، اس کا حال بیان کیا۔ آپؓ اس بات سے بہت خوش ہوئیں۔(طبقات ابن سعد، حصہ اول 165، دارالاشاعت کراچی)

Comments (0)
Add Comment