سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں فخرپاکستان بیل کی قیمت ایک کروڑروپے مقرر

پہلی قسط
سید نبیل اختر/ اسامہ عادل
تصاویر: محمد امین خان
سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں ملکی و غیر ملکی نسل کے خوبصورت ترین جانور شہریوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وی آئی پی بلاکس میں موجود ان جانوروں کی قیمتیں ڈھائی لاکھ روپے سے 35 لاکھ روپے تک ہیں۔ جبکہ کراچی کے ایک بیوپاری نے فخرِ پاکستان کہلانے والا بیل ایک کروڑ روپے میں فروخت کے لئے پیش کیا ہے۔ صحت مند اور بھاری وزن کے ان جانوروں کو چارے کے ساتھ ساتھ سرسو ںکا تیل، دہی اور دودھ بھی وافر مقدار میں دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر جانور معروف کیٹل فارم پر بڑی محنت کے ساتھ تیار کئے جاتے ہیں۔ مہنگے ترین ہونے کے باوجود یومیہ 40 کے لگ بھگ جانور لاکھوں روپے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں مجموعی طور پر ان قیمتی جانوروں کی تعداد کم ہے۔
10 جولائی 2018ء سے سپر ہائی وے سہراب گوٹھ پر لگنے والی ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی میں جانوروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، تاہم یکم اگست سے اس سلسلے میں یومیہ بنیادوں پر تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ سہراب مویشی منڈی میں سبی، ملتان، ساہیوال، جیکب آباد، نو شہرو فیروز، دادو، نواب شاہ اور ملک کے دیگر علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں گائے، بیل، اونٹ اور بکرے لائے گئے ہیں۔ منڈی میں جانوروں کی فروخت کے لئے وی آئی پی ٹینٹوں کے ساتھ پہلی بار بینکویٹ بھی سجایا گیا ہے۔ جس سے منڈی کی رونق مزید بڑھ گئی ہے۔ ابتدا میں ہی منڈی کے منتظمین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ منڈی میں تاجروں اور خریداروں کے لیے سہولیات کی فراہمی کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے، تاکہ لوگوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کسٹمرز کے لیے انتظامات میں مفت پارکنگ کی سہولت، لائٹس کا انتظام اور جانورں کو گاڑیوں سے اتارنے کے لیے مفت ریمپس شامل ہیں۔ منڈی میں گائے، بیل، بکروں اور دنبوں کی آمد تو پہلے ہی ہوگئی تھی، جبکہ یکم اگست سے اونٹوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، جس نے منڈی کی رونق میں اضافہ کر دیا ہے۔ 5 اگست کو منڈی کے منتظمین نے جانوروں کی تعداد کے حوالے سے واضح کیا کہ اب تک ایک لاکھ جانور منڈی پہنچ چکے ہیں اور ان کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد قربانی کے جانوروں کی خریداری کیلئے منڈی آنا شروع ہوگئی ہے اور توقع ہے کہ اس بار عوام کی ریکارڈ تعداد منڈی کا رخ کرے گی۔ تاہم جانوروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے شہریوں نے بڑی تعداد میں منڈی کا رخ نہیں کیا ہے۔ لیکن منتظمین کی جانب سے منڈی میں آنے والے خواتین و مردوں کے لئے مفت ٹوائلٹس، مساجد کا قیام، جانوروں کیلئے پکے سیمنٹ کے حوض، پانی کی موثر سپلائی، صفائی ستھرائی کے انتظامات اور سیکورٹی کے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی کے قیام کے لئے 900 ایکڑ سے زائد کا رقبہ مختص کیا گیا، جس میں وی آئی پی سمیت 28 بلاکس شامل ہیں۔ 5 وی آئی پی بلاک ہیں اور 23 جنرل بلاک۔ جبکہ بکرا منڈی کے لئے 2 بلاک مختص کئے گئے ہیں۔ منڈی میں پانی کی فراہمی کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے اور فی جانور 16 لیٹر پانی روزانہ دیا جارہا ہے۔ جبکہ جنرل بلاک میں بلا قیمت پلاٹ کی فراہمی اور دیگر سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ منڈی میں بکرے، اونٹ اور گائے و بیل مختلف بلاکوں میں رکھے گئے ہیں۔ منڈی میں داخلہ فیس فی گائے اور اونٹ 1400 روپے اور فی بکرا بکری 800 روپے مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ وی آئی پی بلاکس کے علاوہ بیوپاریوں کو پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر مفت جگہ دی گئی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ بیوپاری ملک کی دیگر منڈیوں کے بجائے یہاں کا رخ کریں۔ سروے کے دوران معلوم ہوا کہ لائیو اسٹاک ویٹرنری ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملے پر مشتمل تین ٹیمیں بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
منڈی ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں چاند ہونے تک 18 ہزار گاڑیوں کا مال منڈی میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ تاہم اس برس اب تک محض ساڑھے 7 ہزار گاڑیوں کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ جانور منڈی لایا جاسکا ہے، جس میں گائے اور بیل ایک لاکھ سے زائد ہیں۔ جبکہ بکرے/ بکریوں اور دنبوں کی تعداد 40 ہزار ہے۔ اسی طرح 2000 اونٹ بھی منڈی میں آ چکے ہیں۔
’’امت‘‘ نے سب سے پہلے وی آئی پی بلاکس کا رخ کیا، جہاں انتہائی مہنگے اور خوبصورت جانور فروخت کے لئے رکھے گئے ہیں۔ ان جانوروں کو روزانہ صبح سے رات 8 بجے تک خدمت گاروں کے ذریعے مین ٹین رکھا جاتا ہے۔ ان جانوروں کی قیمتیں اتنی زیادہ کیوں ہوتی ہیں اور یہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا، جس کے جواب کے لئے معروف کیٹل فارمز کے منیجرز سے رابطہ کیا گیا۔ ’’امت‘‘ ٹیم کی سب سے پہلے ملاقات پہلی مرتبہ لگائے گئے ایئر کنڈیشنڈ بینکویٹ میں تنویر نامی شخص سے ہوئی، جو مذکورہ بینکویٹ میں لائے جانے والے تمام جانوروں کی دیکھ بھال پر مامور تھا۔ بینکویٹ دن کے اوقات میں بند رکھنے سے متعلق تنویر نے بتایا کہ ’’یہ ہمارا پہلا تجربہ ہے۔ اصل میں وی آئی پی ٹینٹ کا کلچر رات کا ہے۔ رش شام سے ہی لگ جاتا ہے، لیکن اصل خریدار رات 11 بجے کے بعد آنا شروع ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایئر کنڈیشن صرف رات میں ہی چلایا جاتا ہے‘‘۔ تنویر کے مطابق ان کے پاس 4 لاکھ سے 25 لاکھ روپے مالیت کے جانور موجود ہیں، جن کا وزن 14 سے 25 من تک ہے۔ ان میں دو اور چار دانت کے جانور شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’28 دنوں میں اب تک 28 جانور بک چکے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں لوگ محض دیکھ کر ہی چلے جاتے تھے، لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے مال بکنا شروع ہو گیا ہے‘‘۔ ایک سوال پر تنویر کا کہنا تھا کہ عام طور پر منڈی میں 18 سے 22 ہزار گاڑیاں مال لے کر آتی ہیں۔ لیکن اس بار منڈی میں مال کم آیا ہے جس کی وجہ تلاش کرنے میں ان سمیت تمام فارمرز کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بحریہ ٹاؤن کے قریب ہمارا کیٹل فارم ہے اور ہم نے تمام جانور خود تیار کئے ہیں۔ ان میں چولستان اور ساہیوال نسل کے جانوروں کے ساتھ بریڈ والے جانور بھی شامل ہیں۔ ہر جانور کو یومیہ 20 لیٹر دودھ دوپہر 12 بجے دیا جاتا ہے۔ جبکہ 3 کلو دہی اور آدھا کلو تیل بھی ان جانوروں کی خوراک کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ دو وقت چارا (ونڈا) دیا جاتا ہے، جس میں ہر ایک جانور کو گندم، چنے کا آٹا، چوکر بھوسی، کھلی ملا کر 10 کلو، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 20 کلو گھاس بھی کھلائی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق جانوروں کو روزانہ کی بنیاد پر دودھ پلانے کا عمل سال بھر جاری رہتا ہے، البتہ دہی اور سرسوں کا تیل گرمیوں میں 3 ماہ تک دیا جاتا ہے‘‘۔
ایک دوسرے کیٹل فارمر اختر بلوچ نے بتایا کہ وہ گزشتہ 25 سال سے کیٹل فارمنگ کر رہے ہیں۔ عید قرباں کے لئے جانوروں کی فارمنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے سب سے پہلے منڈی میں قربانی کے لئے نئی نسل کے جانور متعارف کرائے۔ اختر نے بتایا کہ ’’پاکستانی ساہیوال اور انڈین راجستھان کی کراس نسل ریڈ برہمن کہلاتی ہے، جسے منڈی میں ہماری ایجاد قرار دیا جاتا ہے۔ درحقیقت اس نسل کے لئے آسٹریلین فارمرز کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور اس نئی کراس نسل کو 2014ء میں منڈی لانے میں کامیاب ہوئے۔ ایمریو نسل کے جانور آسٹریلین گائے اور پاکستانی چولستان، ساہیوال اور تھری نسل کی کراس ہے۔ یہ نسل جس آسٹریلین گائے کی کراس ہے، وہ یومیہ 50 لیٹر دودھ دیتی ہے۔ سب سے پہلے 2010ء میں ہم اس نسل کے جانور کو قربانی کے لئے تیار کر کے منڈی میں لائے تھے‘‘۔ ایک سوال پر اختر نے بتایا کہ ’’جانوروں میں خوبصورتی اور مارکیٹ ڈیمانڈ کے حوالے سے پاکستان کی بریڈ سب سے آگے ہے۔ اس میں ساہیوال، چولستان اور راجن پور نسل جسے نکرا اور گلابی بھی کہا جاتا ہے، شامل ہیں۔ اس نسل کے جانوروں کے علاوہ ہمارے اسٹال پر ٹائیگر نسل اور امریکن پانڈا بھی شامل ہیں۔ ان جانوروں کا وزن 8 سو کلو سے 18 سو کلو گرام تک ہوتا ہے۔ نسل، وزن اور خوبصورتی کے لحاظ سے یہ جانور 5 لاکھ روپے سے 15 لاکھ روپے مالیت کے ہیں‘‘۔
دوسری جانب کراچی کے ہی ایک بیوپاری محمد یوسف نے ایک بیل کو ’’فخر پاکستان‘‘ کا نام دیا ہے، جس کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے۔ محمد یوسف نے بتایا کہ اس خوبصورت اور قیمتی بیل کا وزن 60 من اور قد 6 فٹ ہے۔ اس جانور نے ابھی ابھی اپنے 6 دانت پورے کئے ہیں۔ کھلائی پلائی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی خوراک میں یومیہ 10 لیٹر دودھ، 5 کلو چنا اور 2 کلو مکھن کے ساتھ 30 کلو ہرا سبزا بھی کھلاتے ہیں۔ یوسف کے بقول وہ کراچی میں گزشتہ 30 سال سے ہر عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانور فروخت کرنے کے لئے مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی ایک آسٹریلین بیل لائے تھے، جس کی قیمت 40 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ تاہم منڈی گرنے پر اس کے محض 25 لاکھ ہی مل سکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس دیگر جانوروں میں ساہیوال، چولستان، لسبیلہ، سبی، بھنی نکرا نسل کے جانور بھی موجود ہیں اور ہر جانور اپنے قد کاٹھ، وزن اور نسل کے حساب سے 5 سے 7 لاکھ روپے مالیت کا ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment