ن لیگ-پی پی نے حلف برداری تقریب میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا

نجم الحسن عارف
ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ تاحال نہیں کیا۔ نواز لیگ کی اکثریت نہیں چاہتی کہ شہباز شریف تقریب میں جائیں۔ تاہم شرکت کا حتمی فیصلہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد مشاورت سے کیا جائے گا۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بلاول زرداری ذاتی طور پر ایوان صدر جانے کے حامی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف نے ان کے والد اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو شرکت کا پیغام نہیں پہنچایا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے دو روز قبل نواز لیگ اور پی پی کو میڈیا کے ذریعے متوقع وزیر اعظم عمران خان کی ایوان صدر میں تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ تاہم اس سلسلے میں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو باضابطہ دعوت پی ٹی آئی کے وفد نے اتوار کے روز دی ہے۔ پی ٹی آئی کے وفد نے نامزد اسپیکر برائے قومی اسمبلی اسد قیصر کے زیر قیادت موجودہ اسپیکر ایاز صادق و دیگر سے ملاقات کر کے میاں شہباز شریف کو دعوت دی۔ جبکہ بعد ازاں سید خورشید شاہ سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی کے اسد قیصر، شفقت محمود اور فواد چوہدری نے بلاول بھٹو کو دعوت دی۔ اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے یہ دعوت سابق صدر آصف علی زرداری کو دی ہے نہ ہی ایم ایم اے کے سربراہ یا کسی اور پارلیمانی نمائندے کو ایسی دعوت دی گئی ہے۔ نیز کسی اور جماعت کے ذمہ دار کا بھی اس سلسلے میں نام سامنے نہیں آیا ہے۔
ادھر لاہور میں موجود مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ نواز لیگ کے منتخب ارکان کی بڑی تعداد پی ٹی آئی اور اس کی ممکنہ حکومت کے خلاف سخت موقف رکھتی ہے۔ اکثریت تو شروع سے ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حلف اٹھانے کی مخالف ہے۔ جبکہ شروع میں ہی پارٹی اجلاسوں میں یہ بھی طے کر لیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بننے کی صورت میں اس حکومت کو ایسی لفٹ نہ کرائی جائے، جس سے یہ تاثر جائے کہ نواز لیگ نے پی ٹی آئی کی قیادت اور انتخابی نتائج کے حوالے سے نرمی اختیار کرلی ہے۔ اس لئے یہ شروع میں ہی فیصلہ ہو گیا تھا کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے حلف کی تقریب میں میاں شہباز ہی نہیں، کوئی بھی رکن اسمبلی نہ جائے، بلکہ بائیکاٹ کیا جائے۔ تاکہ انتخابات کے حوالے اپنے اعتراضات کی سنجیدگی کو باور کرایا جا سکے۔ ان ذرائع کے مطابق نواز لیگ کے نو منتخب ارکان قومی اسمبلی کی رائے یہ سامنے آئی تھی کہ اگر شروع میں نواز لیگ نے ایسی تقریبات میں جانا شروع کر دیا تو بعد ازاں وزیر اعظم کی مخالفت اور انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کا جواز نہ رہے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی کا معاملہ نواز لیگ سے مختلف ہے، کیونکہ پی پی موجودہ انتخابات کی بہر حال ’’بینفشری‘‘ ہے۔ اس کی سندھ کی حکومت دوبارہ بن سکے گی اور پنجاب میں بھی اس کی قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ گئی ہیں، اس لئے ضروری نہیں ہے کہ پی پی بھی اتنا ہی سخت موقف اختیار کرے۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کا بڑی تعداد میں جیتنا بھی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطے بحالی کا ایک راستہ بن گیا ہے۔ لہٰذا قوی امکان ہے کہ پی پی جس طرح اسمبلیوں کے بائیکاٹ کے حق میں نہیں، اسی طرح وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب کیلئے بھی نرمی اختیار کرے گی۔ تاہم نواز لیگ نے ابھی تک سخت پالیسی اپنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
دوسری جانب پی پی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے جس طرح انتخابی مہم میں بڑے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے، اب بھی ان کی خواہش یہی ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ پہلے ہی دن سے ٹکرائو اور جھگڑے کی صورت پیدا نہ ہو۔ بلکہ وہ تقریب حلف برداری میں بھی جانے کے حامی ہیں۔ لیکن ان کی یہ خواہش ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کو ہر سطح پر فیئر چانس دینے کے حامی ہیں۔ لیکن اگر پی ٹی آئی نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے مراحل میں دونوں بڑی پارٹیوں کے ووٹرز کو توڑنے کی کوشش کی اور منفی ہتھکنڈے استعمال کئے تو اس کے بعد پی پی قیادت بھی اپنی جواباً ایوان صدر میں حلف جانے کے فیصلے کو ’’ریورس‘‘ کر سکتی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق اس میں شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کے وفد نے خورشید شاہ اور دوسرے پارٹی رہنمائوں سے خیر سگالی کے جذبے کے تحت ملاقات کی ہے، اور بلاول بھٹو کیلئے باضابطہ دعوت بھی دی ہے، لیکن اس بارے میں اسپیکر کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے رویے کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی پی ٹی آئی کی طرف سے ان ملاقاتوں کے بعد اپنی نومنتخب پارلیمانی پارٹی کو (آج) 13 اگست کی صبح پہلے باضابطہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کیلئے بلا لیا ہے۔ یقیناً اس اجلاس میں حلف اٹھانے اور اس کے بعد کی حکمت عملی اختیار کرنے پر بات ہوگی۔ نیز اس اجلاس میں پارٹی ارکان کو اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے ساتھ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزارت عظمیٰ کے اپنے امیدوار کیلئے ووٹ کاسٹ کرانے کی حکمت عملی پر بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ وہیں پی ٹی آئی سے ملنے والی دعوت کے بارے میں بھی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے ارکان میں اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ نواز لیگ نے شروع میں ہی دھاندلی کے خلاف اسمبلی میں احتجاج نہ کیا تو احتجاجی تحریک کی قیادت مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں جا سکتی ہے، جس کے بعد نواز لیگ کو مولانا فضل الرحمان کے پیچھے چلنا ہو گا۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ نیب کیسز اور دوسری مشکلات کے باوجود سخت حکمت عملی اختیار کی جائے۔ یہی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بھی خواہش ہے۔ ذرائع کے بقول پارلیمانی پارٹی کے یہ ارکان میاں شہباز شریف سے بھی اپنی اپروچ میں ’’کلیرٹی‘‘ اور یکسوئی لانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ اس لئے نواز لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اگر یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا شہباز شریف کو وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں جانا چاہئے تو اس اجلاس کا دو ٹوک انداز میں فیصلہ اس کے خلاف ہو گا۔ لیکن اگر پارٹی قیادت نے اس بارے میں فیصلہ پی پی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر مشاورت کیلئے موخر کر دیا اور اسپیکر کے انتخاب کے بعد حتمی فیصلے کا عندیہ دیا تو اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Comments (0)
Add Comment