سیاحت کے نام پر25کروڑ کے گھپلے کی تحقیقات شروع

امت رپورٹ
نیب نے سندھ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں سیاحت کے نام پر 25 کروڑ روپے کے گھپلے کی باقاعدہ تحقیقات شروع کردی ہیں۔ مذکورہ تحقیقات سندھ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں 13 کروڑ روپے کی کرپشن اور خلاف ضابطہ ادائیگیوں کا انکشاف ہونے پر کی جا رہی ہیں، جن کے مطابق محکمہ میں من پسند کمپنیوں سے خریداری کیلئے انہیں خلاف ضابطہ ٹھیکے دیئے گئے، جس کے عوض ملوث سرکاری افسران نے بھاری کمیشن وصول کیا۔ تاہم جن کمپنیوں کو بھاری مالیت کے ٹھیکے دیئے گئے ان میں سے بعض نے سرکاری فنڈز سے رقم ملنے کے باوجود سامان تک فراہم نہیں کیا۔ نیب ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب اسٹاف عامر بٹ کی جانب سے لیٹر نمبر No, CVC/2001264/RS/NAB/Karachi.2018/3335 پر سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اور انچارج سی وی سی شہزادہ امتیاز احمد کو متعلقہ ریکارڈ کے ہمراہ 10 اگست کو نیب آفس کراچی میں طلب کیا گیا، جس میں تحقیقات کو آگے بڑھانے کیلئے ان سے تفصیلی پوچھ گچھ کی گئی اور ان سے حاصل کئے گئے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ جبکہ 25 کروڑ روپے میں سے 10 کروڑ روپے خرچ کرنے والے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر غلام مرتضیٰ دائود پوتاکو 15 اگست کو متعلقہ ریکارڈ کے ہمراہ طلب کرلیا گیا ہے۔ نیب حکام کی جانب سے سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے افسران سے جو ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے، اس میں مالی سال 2017-18ء کے دوران چلنے والی اسکیموں اور ٹھیکوں کے ریکارڈ کے علاوہ ان میں کی گئی خریداری کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ جبکہ ان اسکیموں کیلئے جن کمپنیوں سے خریداری کی گئی ان کی تفصیلات اور ان کو کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔
سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن صوبے میں ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کا ذمے دار ادارہ ہے، جس کی ذمے داریوں میں سندھ کے لوک ورثے کو عالمی سطح پر پوروموٹ کرنے کے علاوہ صوبے میں سیاحتی مقامات تلاش کرکے سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ اس ادارے کو ہر سال کروڑوں روپے کا بجٹ اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیوں کی مشہوری کیلئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نہ صرف پروگرام منعقد کئے جاسکیں، بلکہ وڈیوز، تصاویر، میگزین اور دیگر ذرائع سے صوبے میں سیاحت کے فروغ کیلئے بھرپور اقدامات کئے جاسکیں۔ تاہم بعض افسران جو کہ اس ادارے میں کئی برسوں سے مضبوط سیٹنگ بنا کر بیٹھے ہیں، نے بجٹ کو کرپشن کے ذریعے خورد برد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جبکہ حالیہ عرصے میں یہ سلسلہ عروج پر پہنچ گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف صوبے میں سیاحت اور ثقافت کے فروغ کیلئے کی جانے والی سرگرمیاں متاثر ہوئیں بلکہ خود یہ ادارہ بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا اور اب غیر فعال ہوتا جا رہا ہے۔
نیب ذرائع کے مطابق ادارے میں گزشتہ ایک برس کے دوران فرنیچر، ٹیکنیکل آلات، ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، گاڑیوں کی خریداری و مرمت، تشہیری مواد، پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ، وڈیو گرافک، سیمینار، نمائشیں، فیسٹیولز، ملکی اور غیر ملکی دورے اور خریدے گئے سامان کی مرمت کے حوالے سے ہونے والے اخراجات کی تفصیل کی چھان بین کی جا رہی ہے، کیونکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت ہونے والی خریداریوں میں کرپشن کے علاوہ سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر منعقد کئے جانے والے میلوں، نمائشوں اور غیر ملکی دوروں میں بھی بدترین کرپشن کی گئی ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ نے جب نیب کی جانب سے طلب کئے جانے والے سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروموشن غلام مرتضیٰ دائود پوتا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ تحقیقات جلد سے جلد مکمل کی جائیں، تاکہ اصل حقائق سب کے سامنے آسکیں۔ جب سے کارپوریشن کا نظم و نسق وزارت ثقافت و سیاحت کے زیر انتظام لیا گیا ہے، اس وقت سے بعض افسران قوائد اور قوانین میں مرضی کی تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا عملی نمونہ حال ہی میں ہونے والی میٹنگ کے منٹس سے ہوتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل کارپوریشن ایک خودمختار نظام کے تحت چلائی جا رہی تھی، جس میں تمام معاملات ایک منظم انداز میں چلائے جا رہے تھے، کیونکہ سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو صوبائی حکومت کے محکمہ ثقافت اور سیاحت کے آرڈیننس کے تحت رجسٹرڈ کر کے 2008 میں اس کیلئے قواعد و ضوابط بنا لئے گئے تھے۔ اس لئے دوبارہ سے ان میں تبدیلی ضروری نہیں تھی۔ تاہم بعض افسران اپنے ذاتی مفادات کیلئے ان میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے کارپوریشن کے 25 سال پرانے اور سینیئر ملازمین اور افسران کیلئے ترقی کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں کارپوریشن کے افسران کیلئے ترقی پانا اور ایم ڈی کی پوزیشن تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔ اسی کے ساتھ دیگر محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے سرکاری افسران اپنے ذاتی مفادات اور خود کو لانے والے افراد کیلئے ہی کام کریں گے اور انہیں سیاحت اور ثقافت کی سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہی حال دیگر ایسے محکموں کا ہے، جہاں پر سرکاری افسران ڈیپوٹیشن پر تعینات ہوتے ہیں اور خاص مدت پوری کرنے کے بعد تبادلہ کرکے دیگر محکموں میں چلے جاتے ہیں۔ یہ افسران ایک خاص مدت لگانے آتے ہیں اور اس دوران وہ جی بھر کر کرپشن کرتے ہیں۔
اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے تحقیقات میں سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے اس منصوبے کے حوالے سے بھی کام کیا جا رہا ہے جس میں 36 ماہ کیلئے ایک پروجیکٹ کے تحت 4 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ جس کے تحت صوبے بھر میں 5 ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز بنائے گئے تھے جس میں ابتدائی طور پر 20 ملازمین رکھے گئے، جن میں کمپیوٹر آپریٹرز اور ٹیلی فون آپریٹرز شامل ہیں۔ یہ منصوبہ اس لئے تیار کیا گیا تاکہ صوبے میں آنے والے سیاحوں کو صوبے کے تمام سیاحتی اور ثقافتی مقامات کی تفصیل فراہم کی جاسکے، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں شہروں کی سطح پر ایسے مقامی ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز مقامی محکموں کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ جوکہ سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ 2015 میں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس منصوبے کو نصف دورانیے میں ہی روک دیا گیا، جس کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین کی تنخواہیں بھی روک دی گئیں۔ حالانکہ جس وقت منصوبہ شروع ہوا تھا اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تکمیل کے بعد اسے مستقل بنیادوں پر چلایا جائے گا۔ اس وقت بھی اس منصوبے کے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین واجبات کیلئے دربدر ہیں، جبکہ سرکاری افسران نے منصوبے کی رقم جعلی اور بوگس بلز بنا کر ہضم کرلی۔ اس ضمن میں جب سیکرٹری کلچراینڈ ٹورازم ڈپارٹمنٹ اکبر لغاری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی معاملہ زیر غور ہے اور تمام کام دائرے میں رہتے ہوئے کیا جارہا ہے۔

Comments (0)
Add Comment