محمد زبیر خان
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو کارگل کے محاذ کے ہیرو کرنل شیر خان شہید کے مزار پر حاضری سے روک دیا گیا تھا۔ شہید کے بھائی انور خان کا کہنا ہے کہ کرنل شیر خان کے مزار پر حاضری کے لئے پاکستانی پرچم اور وردی سے محبت لازمی ہے۔ اگر منظور پشتین نے اپنا انداز اور پیغام نہ بدلا تو اسے دوبارہ بھی آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ادھر صوابی میں منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنمائوںکو کرنل شیر خان شہید کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کو علاقے کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں پاکستان زندہ باد موومنٹ کے حامیوں نے قومی پرچموں کے ساتھ پہنچ کر احتجاج کیا۔
نشان حیدر کرنل شیر خان کے بڑے بھائی انور خان نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات گفتگو ہوئے کہا ہے کہ ’’نہ تو میں سیاست دان ہوں، نہ ہی مجھے کسی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی میں کسی سے خوف زدہ ہوں۔ میری پہلی اور آخری محبت پاکستان ہے اور پھر اس کے بعد پاک فوج ہے۔ لہذا ایسے کسی فرد کو شہید بھائی کے مزار پر حاضری کی اجازت نہیں، جو پاکستان یا پاک فوج کی مخالفت کرتا ہو۔ میرا شہید بھائی اصل میں میرا بیٹا تھا۔ اسے چھ سال کی عمر سے میں نے پالا تھا اور اس دوران اس کو ایک ہی چیز سکھائی تھی کہ اپنے مذہب اسلام کی پیروی کرنا اور پھر پاکستان سے محبت کرنا۔ اس شہید بھائی نے اس کی اس طرح لاج رکھی کہ اسے پاکستان کا آٹھواں نشان حیدر دیا گیا۔ جب میں یہ اعزاز صدر رفیق تارڑ سے وصول کر رہا تھا اور انہوں نے مجھے مبارک باد دی تو میں نے ان سے کہا تھا کہ پاکستان کو مبارک ہو کہ اسے آٹھواں نشان حیدر ملا ہے اور نشاں حیدر سے بڑھ کر کوئی اور بڑا اعزاز پاکستان میں موجود نہیں۔ اس سے بڑھ کر ہم اپنے لئے، اپنی قوم کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کیا اعزاز مانگ سکتے ہیں۔ کیپٹن کرنل شیر خان کی شہادت کے اٹھارہ سال بعد بھی کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب لوگ شہید کے مزار پر نہ آتے ہوں۔ ملکی اور بین الاقوامی شخصیات آتی ہیں۔ جرنیل، کرنیل، سفارتکار اور سیاستدان سب آتے ہیں، بات کرتے ہیں، د عا کرتے ہیں، مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات لکھتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ ان سب کی اپنی روایات کے مطابق خاطر تواضع کرتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں بہت کچھ دے رکھا ہے۔ مگر جس انداز میں منظور پشتین آیا اور جو پیغام وہ لے کر آیا تھا، یہ ہمیں قبول نہیں ہے۔ کرنل شیر خان کے مزار پر حاضری کے لئے پاکستانی پرچم اور وردی سے محبت لازمی ہے۔ آج بھی میرے پاس شہید کی ایک وردی موجود ہے۔ وردی ہی اس کا کفن تھی اور یہ وردی ہمیں جان سے پیاری ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ہمہ وقت منظور پشتین کو اپنے حجرے پر خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہیں، مگر کرنل شیر خان کے مزار پر آنے کے لئے منظور پشتین کو اپنا انداز اور پیغام بدلنا پڑے گا۔ ورنہ اسے دوبارہ بھی مزار پر آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور کسی بھی ایسے شخص کو مزار پر آنے کی اجازت نہیں جو پاکستانی پرچم کے ساتھ نہیں آنا چاہتا۔ منظور پشتین کو روک کر دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لئے ہے۔ اب جس کا جو دل چاہتا ہے کرلے۔ ہم پروپیگنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ کرنل شیر خان نے کارگل کی سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر پانچ بھارتی چوکیوں پر قبضہ کیا تھا اور بعد ازاں جب سپلائی لائن کٹ گئی تھی اور بھارتی فوج کی دو بٹالین نے فضائیہ کی مدد سے حملہ کیا تھا تو کیپٹن شہید اپنے جیتے جی یہ پوسٹیں بھارتی قبضے میں نہیں جانے دیں۔ وہ تن تنہا بھارتی فوجیوں سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد بھارتی کمانڈر نے بھی کیپٹن کرنل شیر خان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا، جبکہ پاکستان میں ان کو نشان حیدر سے نوازا گیا۔ کرنل شیر خان کی جرأت اور بہادری کی داستانیں صوابی سمیت پورے ملک میں مشہور ہیں۔ صوابی کے علاقے کے نوجوان شہید کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ جب منظور پشتین نواں کلے شیرا ڈا کے علاقے میں شہید کرنل شیر خان کے مزار پر پہنچے تو اس وقت کرنل شیر خان کے بھائی انور شیر خان نے منظور پشتین کو مزار میں داخلے سے روک دیا۔ اس موقع کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں انور شیر خان منظور پشتین کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ’’میں تمہیں جانتا ہوں۔ میں نے تمہارا علاقہ (وزیرستان) دیکھ رکھا ہے۔ مل چکا ہوں سب سے۔ اب بہت ہو چکا۔ میں نے ایسی وڈیو دیکھی ہیں، جس میں پاکستان کے اداروں اور پاکستان کے خلاف بات ہوئی ہے۔ جلسوں میں پاکستانی جھنڈے لے کر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ میرے پاس ابھی بھی اپنے شہید بھائی کی وردی محفوظ ہے اور اس وردی کو اس کا عزت و احترام ملنا چاہیے۔ میرے بھائی نے سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر پاکستان کا جھنڈا بلند کیا تھا اور میں کبھی بھی یہ برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی پاکستان کے جھنڈے اور پاک آرمی کی بے عزتی کرے۔ میں جانتا ہوں تمہارا مقصد کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مزار پر فاتحہ پڑھنا اور اعزاز دینا نہیں ہے، بلکہ اس کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ کرنل شیر خان نے تو اپنے ملک پاکستان اور اپنے خاندان یوسفزئی کے لئے قربانی دی تھی‘‘۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انور شیر خان جو مزار کے اندر موجود تھے، نے منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں کو اندر مزار میں جانے کی اجازت نہیں دی اور منظور پشتین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس چلے گئے تھے۔
ادھر صوابی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کے دوران پاکستان زندہ باد موومنٹ کے زیر اہتمام نوجوانوں نے پاکستان کے جھنڈوں کے ساتھ شرکت کی اور اس موقع پر وہ سب پاکستان کے جھنڈے لے کر جلسہ گاہ میں گئے۔ جہاں پر پہلے تو انہیں روکنے کی کوشش کی گئی، مگر جب وہ جلسہ گاہ کے اندر پہنچ گئے تو پشتون تحفظ موومنٹ کے لوگوں نے ایک بڑی لائن بنا کر انہیں جلسہ گاہ کے ایک مقام پر روک دیا۔ اس موقع پر پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے لوگوں اور نوجوانوں نے اسی مقام پر خاموش کھڑے ہو کر احتجاج کیا تھا۔