نمائندہ امت
غازی ممتاز قادری شہید عید قرباں پر بڑے جانور خصوصاً بیل کی قربانی پسند کیا کرتے تھے۔ قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے نہلاتے، صفائی کرتے اور چارہ کھلاتے۔ غازی شہید کے والد ملک بشیر اعوان نے اس سال قربانی کے لئے ایک بیل میں تین حصے ڈالے ہیں، جن میں ایک حصہ ممتاز قادری کا، ایک غازی شہید کے بیٹے محمد علی اور تیسرا خود ان کا اپنا ہوگا۔ ممتاز قادری شہید اپنی زندگی میں والد صاحب پر زور دیتے تھے کہ قربانی کیلئے بڑا جانور سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے ذبح کیا جائے۔ ملک محمد بشیر اعوان کے مطابق کئی دفعہ انہوں نے پورا بیل اپنے خاندان کی طرف سے ذبح کیا۔ لیکن جب کبھی اتنی گنجائش نہیں ہوتی تھی تو بڑے جانور یعنی بیل میں دو تین حصوں کی شراکت کر لیتے تھے، جیسا کہ اس سال بھی پروگرام ہے۔ ممتاز قادری کی شہادت کے ابتدائی برس میں عیدالاضحی کے دن کئی لوگ کافی مقدار میں گوشت لے کر آئے تھے کہ انہوں نے شہید کی جانب سے قربانی کی ہے، یہ اس کا گوشت ہے۔ بعض افراد بکرے اور بھیڑ کی ران لے کر آئے تھے اور کہتے تھے کہ شہید کے خاندان کو ان کی جانب سے تحفہ ہے۔ لیکن اب گزشتہ سال سے اس میں کمی آئی ہے۔
ممتاز قادری شہید کے والد ملک محمد بشیر اعوان نے ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کتے ہوئے کہا کہ ’’میرے بیٹے ممتاز قادری کو جس طرح نبی کریمؐ کی تمام سنتوں سے عشق تھا، اسی طرح سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے بھی ان کا والہانہ پن عروج پر تھا۔ تین چار ہفتے پہلے ہی وہ مجھے مشورے دینا شروع کردیتے تھے کہ اس سال ایک بکرا کرنا ہے اور گائے یا بیل میں اتنے حصے ڈالنے ہیں۔ ان کے اصرار پر کئی بار بکرا بھی خریدا۔ ورنہ میرا معمول عموماً بڑے جانور میں شراکت داری ہی رہا ہے۔ ہمارے علاقے کی معروف سماجی شخصیت ملک عبدالرؤف ہر سال 50/60 جانور خرید کر لاتے ہیں، جس میں لوگ اپنا اپنا حصہ ڈال کر شراکت دار بنتے ہیں۔ ایک مدت سے ہمارا بھی یہی معمول ہے کہ ملک عبدالرئوف کے ساتھ شراکت کرتے ہیں۔ وہ اچھے فربہ جانور مناسب قیمت پر تلاش کرکے لاتے ہیں۔ عید کے دن اپنے جانور کے ذبیحہ سے لے کر گھر گھر گوشت لانے اور اس کی تقسیم تک میرا شہید بیٹا مجھ سے اور میرے دیگر بیٹوں سے آگے آگے ہوتا تھا۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ممتاز قادری کا شوق تھا۔ اب بعض اوقات کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس موقع پر ممتاز شہید کے کردار اور عمل کو ماضی کی یادوں کے حوالے سے دیکھتا ہوں تو سبحان اللہ، الحمد للہ، بے اختیار زبان پر جاری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ممتاز شہید کا ماضی کا قابل فخر کردار اور اس صورتحال میں اس کے عمل کا تصور مجھے اللہ کا شکر ادا کرنے پر آمادہ کردیتا ہے۔ ممتاز شہید قربانی کا چھوٹا جانور خریدنے منڈی میں میرے ساتھ جاتے تھے اور پھر اس جانور کی خدمت اور اس کی ضروریات پوری کرنا اپنے ذمہ لے لیتے تھے‘‘۔ ایک سوال پر ملک بشیر اعوان نے بتایا کہ ’’ممتاز قادری کی شہادت کے سال اور اس کے بعد ہم پورا بیل اللہ کے نام پر قربان کرتے رہے۔ اب دو تین حصے ڈالتے ہیں۔ اس سال بھی تین حصے شامل کریں گے۔ ممتاز قادری جب جیل میں تھے تو قربانی کا گوشت ملاقات کے دن ان کیلئے پکا کر لے جاتے تھے۔ جسے وہ عام معمول کے کھانے سے الگ برکت کی نیت سے بڑے شوق کے ساتھ کھاتے تھے۔ اسی طرح جیل حکام جس قدر اجازت دیتے تھے، پانچ چھ کلو گرام اور دس کلو گرام تک قربانی کا گوشت بھی انہیں دے کر آتے تھے۔ اس گوشت کو بعد میں اپنے ہاتھوں سے سالن بنا کر قیدیوں اور جیل ملازمین کو کھلاتے تھے اور اپنی اس کاوش اور محنت پر بڑے خوش ہوتے تھے‘‘۔ ملک محمد بشیر اعوان کے بقول ’’جب ممتاز قادری شہید جیل میں تھے تب بھی وہ ہر عید قربان کے آنے سے کئی ہفتے پہلے کی ملاقاتوں میں قربانی کے جانور کے سلسلے میں مشورے کرنا شروع کردیتے تھے اور میں عموماً ان کی رائے کو ہمیشہ اولیت دیتا تھا۔ اب بھی جب اس طرح کا کوئی دینی کام کرنے لگتا ہوں تو یقیناً اللہ اور اس کے نبیؐ کی رضا مقدم ہوتی ہے، لیکن یہ بھی خیال آتا ہے کہ میرے اس عمل سے میرا شہید بیٹا بھی یقیناً بہت خوش ہوگا، جو ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے اپنی جان دے کر ہم سب سے بازی لے گیا ہے‘‘۔ ممتاز قادری شہید کے والد نے مزید کہا کہ ’’عیدالاضحیٰ کے دن نماز عید کی ادائیگی کے بعد اپنے پوتے محمد علی قادری کو ساتھ لے کر اپنی قربانی ذبح کراؤں گا، جس کے بعد گوشت کی تیاری تک کے تمام مراحل تک وہیں موجود ہوں گا۔ قادری شہید کی شہادت سے پہلے میرا معمول تھا کہ اپنا قربانی کا جانور خود ذبح کرتا تھا اور چمڑا اتارنے سے لے کر ہڈیاں توڑنے اور گوشت بنانے تک تمام مراحل میں سرگرم ہوتا تھا۔ لیکن غازی کی شہادت کے بعد اب یہ معمول برقرار نہیں رکھ سکا۔ اب صرف نگرانی کرتا ہوں اور ہدایات دیتا ہوں۔ عموماً نماز ظہر کے بعد اس فریضے سے فارغ ہوکر اور کھانا کھا کر نماز عصر سے پہلے شہید کے مزار پر پہنچوں گا، جبکہ میرے بیٹے وہاں سارا دن موجود ہوتے ہیں۔ مزار سے متصل آبادی کے بعض افراد مزار کے قریب احاطے میں لاکر جانور ذبح کرتے ہیں اور وہیں موجود ضرورت مندوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ بعض افراد ممتاز قادری شہید کے اہل خانہ کیلئے مزار پر بھی گوشت لاکر ہمیں دیتے ہیں اور یہ سلسلہ تدفین سے پہلے سال سے جاری ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر ملک محمد بشیر اعوان نے کہا کہ ’’ممتاز قادری کی طرح ان کا بیٹا محمد علی قادری بھی دینی کاموں میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔ نبی کریمؐ سے اس کا عشق اور دینی امور میں اس کی دلچسپی بڑی گہری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صحت و زندگی دے اور وہ اسی جذبے کے تحت جو اس میں موجود ہے، دینی اور مذہبی کاموں کی ادائیگی میں آگے بڑھتا رہے۔ آمین‘‘۔