قسط نمبر31
اصفہان کے محاصرے اور قتل عام کے حوالے سے امیر تیمور کہتا ہے ’’مجھے دوپہر کے وقت یہ اطلاع مل چکی تھی کہ اصفہانیوں نے میرے کچھ ساتھیوں کو پکڑ کر انہیں ان کے ساتھیوں کے سامنے آگ میں ڈال دیا ہے۔ میں بخوبی سمجھتا تھا کہ ایسا کرنے سے ان کا مقصد میرے سپاہیوں میں ہراس پھیلانا ہے تاکہ وہ دل چھوڑ کر بھاگ نکلیں۔ میں نے غولر بیگ کو جواب دیا کہ فی الوقت لڑائی روک دینا خلاف مصلحت ہوگا۔ ہمیں اپنے ہاتھوں اصفہانیوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ اپنی قوتیں جمع کر کے ہم پر شب خون ماریں یا کل صبح تازہ دم ہو کر ہمارے مقابلے پر نکل آئیں۔ آج رات لڑائی جاری رہنی چاہئے۔ لیکن صرف چند سپاہی لڑائی جاری رکھیں اور بقیہ اپنے اپنے خیموں میں جاکر آرام کریں۔ آج رات اصفہانیوں کو ہماری ہمہ وقت موجودگی کا احساس ہونا چاہئے، تاکہ ان کے ذہنوں میں شب کون مارنے کا خیال نہ ابھر سکے۔ چنانچہ اسی منصوبہ بندی کے تحت پندرہ ہزار سپاہیوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ گروہوں میں بٹ کر رات بھر اصفہانیوں سے زدوخورد کرتے رہیں، جبکہ بقیہ سپاہی اپنے خیموں میں جاکر سو جائیں۔ میں نے خیموں کی چادر پر نمد پھیلانے کا حکم دیا تاکہ بارش کا پانی خیموں کے اندر نہ ٹپکے۔
اس دن ایک لاکھ چھ ہزار فوج لے کر اصفہان پر حملہ آور ہوا تھا، جس میں سے پچاس ہزار سپاہی فاضل فوج کے طور پر شہر سے باہر کھڑے تھے۔ لیکن جب شام ڈھلی تو معلوم ہوا کہ سپاہیوں کی تعداد مزید کم ہو چکی ہے اور اصفہانیوں نے میرے آٹھ ہزار پانچ سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا یا بالکل ناکارہ بنا دیا ہے۔
اس رات صبح تک بارش جاری رہی اور میرے سپاہی رات بھر شہر کی عمارتیں ڈھانے میں مصروف رہے۔ اگلی صبح جب بارش رکی اور سورج کی کرنیں چار سو پھیل گئیں تو میں نے اپنے سرداروں سے کہا کہ لشکر میں موجود تمام وسائل سپاہیوں میں تقسیم کر دیئے جائیں اور ہر سپاہی یہ جان لے کہ اسے لڑنے کے علاوہ عمارتیں ڈھانے کا کام بھی انجام دینا ہوگا۔ میں نے سپاہیوں کو مختلف کام تقسیم کرنے کی ذمہ داری ان کے سرداروں کو سونپی اور کہا کہ اگر کوئی عمارت آسانی سے نہ ڈھائی جا سکے تو مجھے اطلاع دیں تاکہ اسے بارود کے ذریعے اڑا دیا جائے۔ پھر میں نے بیس ہزار سپاہیوں کو فاضل فوج کے طور پر باہر چھوڑا اور بقیہ سپاہیوں کے ساتھ بذات خود حملہ آور ہو گیا۔
ہمارا حملہ چاروں طرف سے شروع ہوا تھا اور جب میں نے شہر میں قدم رکھا تو دیکھا کہ خرابی اتنی زیادہ ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ کیچڑ میں لپٹی ہوئی بے شمار لاشیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ گزشتہ روز شہر میں خوفناک لڑائی چھڑ چکی تھی۔ میرے سپاہیوں نے مو بہ مو میرے احکام کی تعمیل کی تھی اور کسی ترحم کے بغیر شہر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کر دیا تھا۔ گزشتہ دن کی شدید بارش نے شہر کے ویرانوں کو دلدل میں بدل دیا اور مجھے قدم اٹھانے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ میرے پائوں گھٹنوں تک کیچڑ میں دھنس رہے تھے لیکن ایک جنگجو مرد صرف اس لیے پرورش پاتا ہے کہ میدان جنگ میں اس کے پائوں گھٹنوں تک لہو میں ڈوب جائیں اور اگر کیچڑ میں دھنس جائیں تو اسے شکایت نہیں ہونی چاہئے۔
میں راستے کی مشکلات سے ہراساں نہیں تھا لیکن یہ ضرور جانتا تھا کہ جگہ جگہ بکھری ہوئی رکاوٹیں اور گہری دلدلیں میرے سپاہیوں کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔ اصفہان کے باشندے اپنے گھروں میں پناہ لے کر ہماری جانب تیر اور پتھر برسا رہے تھے۔ لیکن میرے سپاہی مختلف رکاوٹوں سے گزر کر ان گھروں کو مسمار کرنے میں مصروف تھے۔ جیسے کوئی عمارت زمین بوس ہوتی تو وہاں کے مکین نکل کر دوسرے گھروں کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے۔ ہمارے پاس وقت کم اور ہمارے غضب کی آگ اتنی زیادہ تھی کہ اگر کوئی خوب صورت عورت ہمارے ہتھے چڑھ جاتی تو ہم اسے قیدی بنانے کی بجائے وہیں اس کا سر قلم کر دیتے یا پیٹ پھاڑ دیتے۔ مرنے والوں کے دھنسے ہوئے رخسار بتا رہے تھے کہ وہ کئی دنوں کی بھوک جھیل چکے ہیں۔ جب کسی عورت یا مرد کا پیٹ پھٹتا تو معلوم ہوتا کہ آخری دنوں میں ان لوگوں کو صرف درختوں کے پتے کھانے نصیب ہوئے تھے۔
مجھے چونکہ جنگ کی نگرانی کرنا تھی، لہٰذا ایک جگہ ٹھہرنے کی بجائے مختلف مقامات کا معائنہ کر رہا تھا۔ سارے محاذوں پر جنگ کی صورت حال تقریباً ایک جیسی تھی۔ اصفہانیوں کی حکمت عملی یہ تھی کہ ہمارے راستے میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گھروں میں پناہ لے کر ہم پر تیر اور پتھر برسائیں۔ ایسا بہت کم ہوتا کہ کوئی اصفہانی تن بہ تن لڑائی کے لیے ہمارے مقابلے پر نکلے۔ دراصل انہیں یہ تجربہ حاصل ہو چکا تھا کہ گلی کوچوں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ہمارا مقابلہ کرنے میں خطرہ کم ہے۔
ایک علاقے میں ایک بڑی مسجد ہمارے سامنے نمودار ہوئی۔ اس مسجد کی دیواریں اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں اور بے حد مستحکم بھی تھیں۔ اگرچہ میں مسجد کے لیے انتہائی عزت و احترام کا قائل ہوں، لیکن میں نے مجبور ہو کر یہ حکم دے دیا کہ اس مسجد کی دیواریں بارود سے اڑا دی جائیں اور ان تمام لوگوں کو ہلاک کر دیا جائے، جو مسجد میں مورچہ بندی کر کے ہم پر پتھر اور تیر برسا رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی حکم دیا کہ ہتھیار پھینک کر تسلیم ہونے والوں کو بھی معاف نہ کیا جائے۔ پھر کچھ دیر بعد ہم ایک قبرستان میں پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ قبروں پر ایک بھی پتھر نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اہل اصفہان قبروں کے پتھر بھی اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور انہوں نے ہمارا راستہ روکنے کے لیے انہی پتھروں سے دیوار بنالی ہے۔ میں نے حکم دیا کہ میرے سپاہی ڈھال کی آڑ لے کر دیوار کے پاس پہنچیں اور ان لوگوں کو پر حملہ کر دیں۔ جب میرے سپاہی وہاں پہنچے تو اصفہانیوں نے ایک دوسرے کی مدد سے ان پر پتھروں کی سلیں پھینکنا شروع کر دیں جس سے میرے کچھ سپاہی ہلاک ہوئے، لیکن بقیہ دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ مدافعین بھی شہر کے وسطی حصے کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔
ایسی صورت حال میں جبکہ میرے سپاہی راستے میں آنے والا ہر گھر ویران کرنے میں مصروف تھے تو اطلاع ملی کہ غولر بیگ شہر کے شمالی حصے میں ایک وسیع گزرگاہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ غولر بیگ کے سپاہی راستے کے دونوں طرف موجود گھروں کو ڈھا رہے تھے اور ان میں رہنے والوں کا قتل عام کرنے میں مصروف تھے۔
میرا لڑکا جہانگیر بھی جنوبی حصے میں ایک وسیع علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جہانگیر بھی غولر بیگ کی طرح راستے میں آنے والی ہر عمارت کو مٹاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
یہاں تک کہ اس کے بھی راستے میں ایک مسجد نمایاں ہوئی۔ معلوم ہوا کہ یہ اصفہان کی جامع مسجد ہے اور کچھ لوگ یہاں جمع ہو کر مزاحمت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ میرے لڑکے نے ان سب کا قلع قمع کر دیا، لیکن تین افراد جو بظاہر امام جماعت تھے، بخش دیا۔ وہ جانتا تھا کہ میں علما، شعرا اور صنعت کاروں کو قتل نہ کرنے کا عہد کر چکا ہوں۔ جہانگیر نے ان لوگوں کو میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا تم تینوں جامع مسجد کے پیش امام ہو؟‘‘۔ ان کا جواب مثبت تھا۔ تب میں نے سوال کیا ’’آیا تم باری باری مسجد میں نماز پڑھاتے ہو!‘‘۔ ان میں سے سفید داڑھی والے ایک شخص نے جواب دیا ’’اے امیر ہم باری باری نماز نہیں پڑھتے، بلکہ ہر اپنی اپنی نماز پڑھتا ہے‘‘۔ یہ جواب سن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ میں نے تعجب سے پوچھا ’’تمہارا مطلب ہے کہ تم لوگ ہر روز جامع مسجد میں نماز پڑھاتے ہو اور لوگ ایک ہی مسجد میں تین اماموں کی اقتدا کرتے ہیں؟‘‘۔ سفید داڑھی والے معمر شخص نے جواب دیا ’’ہاں اے امیر وہ ایسا ہی کرتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’تو پھر تم لوگ ایک ہی مسجد میں تین مختلف جگہوں پر نماز پڑھاتے ہوگے؟‘‘۔ ان کا جواب ہاں میں تھا اور بولے ’’ہماری مسجد میں تین ایوان ہیں اور ہم علیحدہ علیحدہ ان میں نماز پڑھاتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ جنگ کا موقع ہے اور میرے پاس تم سے گفتگو کرنے کا وقت نہیں لیکن یہ ضرور پوچھوں گا کہ تم میں سے دو افراد تیسرے کی اقتدا کیوں نہیں کرتے، تاکہ سارے نمازی ایک ہی امام کے پیچھے نماز ادا کر سکیں؟‘‘۔ وہی باریش شخص بولا ’’اے امیر، یہاں کے باشندے ایسے شخص کی اقتدا کرتے ہیں جسے وہ عادل سمجھتے ہوں۔ اسی لیے ہر کوئی اپنے امام کی اقتدا کرتا ہے، کیونکہ وہ صرف اسی کو عادل سمجھتا ہے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا متقدا نہیں مانتا‘‘۔ میں نے بوڑھے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اگر تو کسی موچی سے کہے کہ میرے لیے جوتا بنا تو کیا یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ عادل ہے یا ظالم؟ تجھے جوتا درکار ہے اور وہ بھی جوتا بنا کر اپنی مزدوری دریافت کرلے گا۔ دین اسلام میں مسلمانوں کو بوقت نماز ایک شخص کی اقتدا کرنی چاہئے اور صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شخص مسلمان ہو اور نماز پڑھا سکے۔ دینی احکام میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ نماز پڑھانے والا فرشتوں میں سے ہونا چاہئے بلکہ صرف اتنا کافی ہے کہ لوگ اسے سچا مسلمان سمجھیں اور ’’عادل‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کی جانب سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوا ہو جو دینی احکام کے منافی ہو‘‘۔ میرے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ اسے مسئلے پر ان تین پیش اماموں سے مباحثہ کروں، ورنہ یہ ثابت کر دیتا کہ مسلمان جہاں بھی ہوں انہیں باجماعت نماز پڑھتے وقت صرف ایک شخص کی اقتدا کرنی چاہئے اور اس بات کی قطعی ضرورت نہیں کہ نماز پڑھانے والا یقینی طور پر زاہدوں اور عالموں میں سے ہو بلکہ صرف اتنا کافی ہے کہ عوام الناس اسے سچا مسلمان سمجھیں۔ (جاری ہے)