برصغیر میں صوفیائے کرام کے مشہور چار سلسلے ہیں: (1) قادریہ (2) سہروردیہ (3) چشتیہ (4) نقشبندیہقادری سلسلے کے بانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہیں۔ سہروردی سلسلے کے بانی حضرت شیخ شہاب الدینؒ ہیں۔ حضرت شیخ سعدیؒ شیرازی بھی حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے مرید تھے۔ چشتی سلسلے کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں۔ نقشبندی سلسلے کے بانی حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی ؒہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ جو چشتی سلسلہ کے بانی ہیں، آپؒ نے لاکھوں کفار کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ آپ نے پیر و مرشد کے فرمان کے مطابق اجمیر سے باہر ایک ٹیلے پر تشریف فرما ہوئے۔ شہر میں کوئی واقف تھا اور نہ شناسائی۔ ذکر بالجہر (بلند آواز سے ذکر الٰہی) میں مشغول ہو جاتے۔ لوگ سنتے سنتے جمع ہو جاتے اور آپؒ کے اردگرد گھیرا بنا لیتے۔
آپؒ نے حق تعالیٰ کے نام کی ضرب لگا کر اپنے دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، آگے دیکھا، پیچھے دیکھا۔ جدھر دیکھا مخلوق خدا کو دائرہ اسلام میں داخل کرتے گئے۔ کافی لوگ آپ کے فیضان فیض سے اور نور ایمان کی روشنی سے منور ہوئے جو بدنصیب بچ گیا وہ واپس ہوا۔ جب کچھ لوگ گھر واپس گئے تو باقی رشتہ داروں کو بتایا کہ یہاں مسلمانوں کا ایک فقیر آیا ہے، اس نے ہمارے ساتھیوں کے دلوں کو موہ لیا ہے اور اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، یہ سن کر فوراً لوگ وہاں پہنچے کہ اگر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تو اسلام کو چھوڑ دیں گے اور شرمندہ ہو جائیں گے اور واپس ہمارے ساتھ آجائیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ وہاں پہنچے تو نام لے لے کر (فلاں رام، فلاں وغیرہ) بلایا، سب نے یک زباں ہو کر جواب دیا کہ تمہیں چاہئے کہ ہم سے بالکل نا امید ہوجاؤ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے دل نور ایمان اور یقین محکم سے منور ہو چکے ہیں، ہم کسی صورت میں دوبارہ کفر کو قبول نہیں کر سکتے۔
حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی، تو حضرت نے نماز کیلئے مسجد بنانے کا حکم دیا۔ سی آئی ڈی (محکمہ، خفیہ پولیس) نے راجہ داہر کو اطلاع دی۔ راجہ نے سختی سے حکم دیا کہ خواجہ صاحب کے مریدوں کو بیگار کیلئے پکڑ لیا جائے، تاکہ انہیں مسجد بنانے کی ہوش ہی نہ رہے، لیکن حضرت کے مریدوں کے دلوں میں جذبہ ایمانی اس قدر تھا کہ انہوں نے دن کو بیگار (یعنی جبراً کسی کو بغیر اجرت کام کیلئے پکڑنا) میں کام کیا تو رات کو خدا کے گھر کی تعمیر شروع کی۔ راجہ کو جب اس کا بھی پتہ چل گیا تو تیل کے کنستر خالی کروائے تاکہ نہ تیل ہوگا اور نہ شمعیں روشن ہوں گی اور نہ ہی روشنی کے بغیر مسجد کی تعمیر کر سکیں گے وغیرہ۔
جب آپ کے سچے جاں نثار خدام شام کو واپس آئے تو دیکھا کہ تیل پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ (جو انہوں نے اپنے پاس جمع کر رکھا تھا) انہوں نے پھر حضرت کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ایمان والو! اتنا تو بتاؤ کہ تیل خود جلتا ہے یا ہمارا رب اسے جلاتا ہے؟ عرض کیا: حضرت ہمارا رب ہی اسے جلاتا ہے، ہر چیز اس کے قبضے قدرت میں ہے۔ فرمایا جو تیل کو جلاتا اور روشن کرتا ہے کیا وہ اس فقیر اور سرور عالمؐ کے غلام کے لوٹے کے پانی کو جلا کر روشنی کا انتظام نہیں فرما سکتا۔ جاؤ صدق دل سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر میرے لوٹے کے پانی کو جلاؤ، خدا تعالی قادر ہے کہ اپنے نبیؐ کے سچے دین کی لاج رکھ لے گا۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے پانی چراغوں میں ڈالا تو پروردگار عالم نے اپنے نبیؐ کے نام کی لاج رکھ لی اور پانی خوب جلنے لگا (یہ حضرت کی کرامت تھی) کفار مایوس ہوگئے۔ انہیں جب اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو راجہ نے فوج کو آرڈر دے دیا کہ فقیر صاحب کی جھونپڑی کا محاصرہ کر لینا جائے اور کہا جب فقیر سو جائے تو جھونپڑی کو فوراً آگ لگا دیں۔
حضرت شیخ اپنی جھونپڑی میں تشریف فرما ہوئے تو مصلیٰ بچھا کر نماز میں پورے خشوع و خضوع سے مشغول ہوگئے اور ساری رات یاد الٰہی میں مصروف رہے۔ بالآخر ایک سپاہی نے تنگ آکر اپنے کمانڈر کپتان کو کہا کہ سر آپ سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جھونپڑی کو آگ نہ لگا کر آپ سرکاری حکم اور فریضہ کی انجام دہی سے قاصر ہو رہے ہیں۔ کپتان نے کہا: آرڈر میں تو یہ لکھا ہے کہ فقیر جس وقت سو جائے، تو آگ لگا دو، لیکن وہ تو ساری رات سویا ہی نہیں۔ بھلا میں کیسے آگ لگا سکتا ہوں، سپاہی نے کہا کہ حالت سجدہ کو حالت نیند قرار دے کر آگ لگا دو، (یعنی جب فقیر سجدہ میں جائے تو تصور کرو کہ اب سو گیا ہے) چنانچہ سپاہی کی یہ تجویز آفیسر کو بہت پسند آئی۔ (لیکن رب العزت کو پسند نہ آئی) تو پھر ایسا ہی کیا گیا، جب خدا کا ولی سجدہ ریز ہوا تو جھونپڑی کو آگ لگا دی گئی۔ جھونپڑی جل گئی، تو حضرت قرآن کریم گلے میں لٹکا کر ذکر الٰہی کرتے ہوئے صحیح سلامت باہر تشریف لائے، لباس پر ذرہ برابر داغ و دھبہ نہ تھا (حضرت کی دوسری کرامت تھی جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی) فرمایا: حضرات! غور سے سن لو جسے میرا رب کائنات نہ جلائے اسے کوئی جلا نہیں سکتا۔ خدا کی شان حضرت خواجہ صاحب کی اس کرامت کو دیکھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ یاد رہے کہ یہ سب اولیاء کرام عالم باعمل تھے اور ان ہی بزرگان دین کی محنت وتبلیغ سے یوں ہمالیہ کے دامن میں جوق در جوق لوگ دائرئہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں کوئی گھر سے خالی نہ تھا۔(گلدستہ واقعات و حکایات)
٭٭٭٭٭